media malikaan or bikao media persons

میڈیا انڈسٹری عدم توازن کا شکار

تحریر: جاوید صدیقی۔۔

پاکستان بین الاقوامی میڈیا انڈسٹری میں وہ ملک ھے جہاں میڈیا مالکان اور افسران اخلاقی اقدار اور انسانیت سے دور نظر آتے ہیں۔ ہمیں دنیا کے کسی بھی ملک میں ماتحتوں اور کم تنخواہ داروں کیساتھ معاشی قتل ھوتے نہ سنا نہ پڑھا اور نہ ہی دیکھا۔ گزشتہ دو سال قبل دنیا بھر میں کرونا وائرس نے شدید حملہ کیا بڑے بڑے ممالک شدید نقصان سے دوچار ھوئے مگر کسی ایک نے بھی اپنے ملازمین کا معاشی قتل نہیں کیا اس کی سب سے بڑی وجہ دنیا بھر کے میڈیا چینلز اپنی اپنی حکومتی آئینی اور اداروں کے طریقہ کار نظم و ضبط پر کاربند رہتے ہیں اور سالانہ آڈٹ کرواتے ہیں۔ اس تمام مالی نقصان کو چینلز کے مالکان نے برداشت کیا دوسرا یہ کہ دنیا بھر میں میڈیا انڈسٹری تنخواہوں اور مراعات میں توازن قائم رکھتی ہیں تاکہ نظام ابتر نہ ھوسکے لیکن افسوس یہاں پاکستان میں بیشتر کثیر تعداد میں میڈیا افسران مالکان کے خاص بن جاتے ہیں اور مالکان کی جی حضوری میں تمام حدیں پار کرجاتے ہیں جس سے عام ملازم شدید متاثر ھوتا ھے۔ میڈیا مالکان کو بھی اپنی ذمہداریاں محسوس کرنی چاہئیں کہیں افسر کے حکم نامے سے کسی کیساتھ ظلم و نا انصافی کا عمل تو نہیں ھورھا بحرحال پاکستانی میڈیا انڈسٹری کے تمام بااختیار افسران اور مالکان توازن کیساتھ نظام مروج رکھیں بناء سنگین جرائم ھونے پر بیروزگار نہ کیا جائے۔ ناانصافی سب سے بڑا گناہ کبیرہ ھے۔

جس طرح پاکستان بھر میں مختلف تنظیمیں ایسوسی ایشن گروپ اپنی اپنی انڈسٹریز اور روزگار کے تحفظ کیلئے یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ھوئے حکومتی بے انصافی اقدامات پر اپنا احتجاج ریکارڈ کراتی کراتی ہیں مثلاً تاجری برادری تو پھر میڈیا انڈسٹری سے وابستگی رکھنے والے ملازمین ارکان بھی ایک دوسرے کیساتھ بھرپور کھڑے ھوکر احتجاج میں شامل رہیں۔ حالیہ دنوں میں اےآروائی کی بندش کے خلاف کراچی پریس کلب سمیت پاکستان بھر کے پریس کلبوں میں احتجاج کا سلسلہ جاری ھے آئیں ھم سب ہر چینلز کے ملازمین و ارکان بھی ہر احتجاج میں بھرپور شرکت کرتے ھوئے اپنی یکجہتی اتحاد اخوت کا مظاہرہ پیش کریں اور کرتے رہیں یاد رھے میڈیا انڈسٹری کے تمام چینلز ہزاروں نہیں لاکھوں لوگوں کے روزگار کا ذریعہ ھے۔ چینلز مضبوط ھونگے تو روزگار بڑھیں گے۔ چینلز مالکان بڑی اور حساس منصب پر پروفیشنل لوگوں کا تقرر یقینی بنائیں۔ یہ حقیقت ھے کہ عماد بن یوسف نہ تو صحافی ھے اور نہ ہی اس کا نیوز سینس سے کوئی دور دور تک تعلق ھے۔ ایسے نان پروفیشنل لوگ صحافت اور چینل کیلئے جگ ہنسائی اور رسوائی کا سبب بنتے ہیں۔(جاوید صدیقی)۔۔

ary jald bahal kia jaye | Fahad Mustafa
آزادی اظہار رائے کی تعریف ہم سب غلط پڑھتے ہیں، ہائیکورٹ۔۔
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں