تحریر: جاوید صدیقی۔۔
جنرل مشرف کے دور سے قبل ابلاغ عامہ صحافت کے اصل رموز میں تھا، لکھنے اور بولنے والے اپنے منصب سے مکمل انصاف کرتے تھے قلم سچ و حق لکھنے پر نہ رکتا تھا اور نہ ہی زبان بکتی تھی، تنخواہ قلیل تھیں مگر عزت و احترام کمال حد تک تھا، صحافیوں سے کرپٹ مافیا خوف کھاتے تھے، حق و سچ کی خاطر بڑی بڑی صعوبتیں جھیلیں مگر اتحاد اوریکجہتی ایسی کہ سارے پاکستان کی صحافتی تنظیمیں یکجان ہوتیں وہ ادوار بھی آئے جنہیں آمریت کہا جاتا ہےمگر ان ادوار میں صحافیوں کیساتھ انسان سوز سلوک ناروا نہیں رکھا گیا انہی آمروں میں ایک آمر نے پاکستان کی ترقی کیلئے نئی سے نئی راہیں کھولیں اس کا دور سب سے اچھا تصور کیا جاتا ہے اس عظیم لیڈر بہترین سپہ سالار کا نام جنرل مشرف ہے، مشرف نے ابلاغ عامہ کو جہد بخشی اور میڈیا انڈسٹری کی بنیاد رکھتے ہوئے اس کی کنٹرول کیلئے آزادانہ خودمختار ادارہ پیمرا بھی تشکیل دیا، جنرل مشرف کے ادوار میں بیش بہا نجی چینلز لاٶنچ ہوئے اور اس طرح روزگار کا ایک بہت بڑا سلسلہ جاری ہوگیا لیکن جنرل مشرف کے بعد زرداری اور نواز شریف نے اپنے اپنے دور حکومت میں سب سے پہلے پیمرا کی طاقت کو دبوچتے ہوئے اپنے نااہل لوگوں کو چیرمین بناڈالا دوسری جانب نجی چینلز کے مالکان سے سودے بازی کرکے میڈیا انڈسٹری کی اساس اور روح کو فنا کردیا یہی نہیں بلکہ اینکروں کی قیمتیں بھاٶ تاٶ متعین کردیئے یہاں تک کہ اسی لاکھ سے ایک کڑور تک جاپہنچے اس عمل سے نجی چینلز کا مشاہراتی توازن بگڑنے لگا جس پر چینلز کے مالکان نے مزید ظلم کرڈالا ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ جن کی تنخواہیں آسمانوں سے باتیں کررہی تھیں انہیں کم کرکے کسی کو بھی بیروزگار نہ کرتے لیکن مالکان نے کم تنخواہ والوں کو نکال باہر کیا۔۔۔۔معزز قارئین !!ان تمام اینکروں اوربڑے عہدوں پر فائز میڈیا پرسن سے کوئی پوچھے کہ چینلز کے کم تنخواہ دار ملازمین کو ڈاٶن سائزنگ کے تحت نکالا تو یہ کئی کئی لاکھ تنخواہ لینے والےاینکرز، ہیڈز نے کیا مالکان کو سمجھانے کی کوشش کی کہ انھیں احساس کرنا چاہیئے کہ پرانے مخلص کم تنخواہ داروں کو نہ نکالیں تب ان کا اینکروں کا جذبہ حق و سچ کہاں گیا تھا کبھی ان جیسے میڈیا پرسن نے آواز بلند کی کہ لاکھوں تنخواہ کیساتھ دیگر مراعات حاصل کرنے والے میڈیا ملازمین کی تنخواہیں کم کرکے بیروزگار نہ کریں حقیقت تو یہ ہے کہ جو جتنا میڈیا میں اونچی جگہ بیٹھا ہے وہ اسی قدر جھوٹ غلط بیانی اور منافقت کررہا ہے یہ سب کے سب خود غرض موقع پرست ہیں۔۔
ان کا تھا حال ایسا ہی ہے کہ جیسے میک اپ کرکے اسکرین کے سامنے آتے ہیں اسی طرح لفظوں کے میک اپ یعنی منافقت اور جھوٹ کیساتھ ادائیگی کا فن دکھاتے ہیں یہ دولت کی ہوس اور لالچ میں اس قدر اندھے ہوتے ہیں کہ ان کے دل کا احساس مٹ جاتا ہے جب ان کا یہ حال ہے تو اندازہ کرلیجئے کہ ہیڈز اور مالکان کے ظرف اور احساس انسانیت کس قدر ختم ہوچکا ہوگا مجھے متاثرین میں سے کسی نے کہا کہ میڈیا مالکان کا سونا بچھونا اور ایمان صرف دولت ہی رہ گیا ہے ان کے نزدیک یہ دولت یہ شان شوکت ان کی محنت کا ثمر ہے ایک چینل کے مالک غربت کا رونا روتے ہوئے اپنے مخلص سچے ایماندار کن تنخواہ والوں کو بیروزگارکرتے ہیں تو دوسری جانب دنیا کےمہنگے ترین پروجیکٹ کا اعلان اورافتتاح بھی کرتےہیں اور ایک بڑے چینل کے مالک صحافت کو ببانگ دہل کاروبار کہتے ہیں۔۔ آج کل وہ نیب کی حراست میں ہیں تو ان کے چینلز کے صحافی احتجاج کرتے ہوئے اس عمل کو صحافت پر قدغن قرار دیتے ہیں جہاں صحافی بکتے ہوں وہاں صحافت کہاں رہ جاتی ہے حیرت و تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ان احتجاجی کیمپ میں صحافتی تنظیم کے عہدیدار بھی شریک ہوئے جو قابل افسوس ہے کیا یہ بھول گئے کہ ان کے بیشمار صحافی اور میڈیا پرسن کو بیروزگار کیا ہے ویسے یہ میڈیا مالک جرم کی بنا پر قید ہیں میڈیا کو یہ آئینی حق نہیں کہ دوران عدالت کیس میں مداخلت کرے میڈیا کے تمام مالکان، اینکرز، ہیڈز اور بےضمیر اورکالی بھیڑوں کابھی احستاب ہونا چاہیئے ۔۔(جاوید صدیقی، محقق،کالم نگار)۔۔