تحریر: مظہر جلالی
میڈیا انڈسٹری کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے، لیکن اس انڈسٹری کے اندر کام کرنے والے ورکرز، خاص طور پر صحافی، جن پر اس ستون کا انحصار ہے، خود بدترین حالات کا شکار ہیں۔ میڈیا کے اداروں میں کارکنان کے ساتھ ہونے والی ناانصافی اور استحصال اس قدر بڑھ چکا ہے کہ یہ نہ صرف ان کی پیشہ ورانہ زندگی بلکہ ذاتی زندگی پر بھی منفی اثر ڈال رہا ہے۔
میڈیا اداروں میں کام کرنے والے ورکرز کو وقت پر تنخواہیں نہیں دی جاتیں۔ دو دو، تین تین مہینے کی تنخواہیں روک لی جاتی ہیں، اور پھر بڑی مشکل سے ایک مہینے کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ اس صورتحال میں میڈیا ورکرز کو اپنے روزمرہ کے اخراجات پورے کرنے کے لیے قرض لینے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف ان کی مالی مشکلات میں اضافہ کرتا ہے بلکہ ان کی پیشہ ورانہ کارکردگی کو بھی متاثر کرتا ہے۔
میڈیا کارکنان کو اضافی مراعات (intensives) فراہم کرنا تو دور کی بات، ان کے بنیادی حقوق بھی ادا نہیں کیے جا رہے۔ یہ مراعات، جو ان کے حوصلے بلند کر سکتی تھیں، آج ایک خواب بن چکی ہیں۔ کسی بھی پیشے میں کارکنان کی قدر اور ان کی کارکردگی کا دارومدار ان کے کام کی پہچان اور مراعات پر ہوتا ہے، لیکن میڈیا انڈسٹری میں یہ پہلو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
اس بگڑتی صورتحال کے دو اہم ذمہ دار ہیں:
- میڈیا مالکان:
میڈیا مالکان، جن کے لیے منافع کمانا اولین ترجیح ہے، اپنے ملازمین کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی اقدام نہیں کرتے۔ اداروں میں کام کرنے والے کارکنان کی محنت کو صرف ایک وسیلہ سمجھا جاتا ہے، جبکہ ان کے مسائل کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
- صحافتی تنظیمیں:
صحافتی تنظیمیں، جو بظاہر صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بنائی گئی ہیں، عملی طور پر ناکام دکھائی دیتی ہیں۔ یہ تنظیمیں میڈیا کارکنان کے مسائل حل کرنے یا ان کو تحفظ فراہم کرنے میں مکمل طور پر غیر موثر ثابت ہوئی ہیں۔ ان کی خاموشی اور بے عملی نے میڈیا ورکرز کی مشکلات کو مزید بڑھا دیا ہے۔
یہ نا انصافیاں اور حق تلفی میڈیا ورکرز کی زندگی پر شدید اثر ڈال رہی ہیں۔ کئی صحافی دل برداشتہ ہو کر خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اور وہ صحافی جو نفسیاتی طور پر مضبوط ہوتے ہیں اور خودکشی جیسے خیالات سے بچ نکلتے ہیں، اکثر شدید دباؤ کے باعث ہارٹ اٹیک یا دیگر بیماریوں کا شکار ہو کر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں جیسے ماضی قریب میں چند واقعات ہمارے ذہنوں میں نقش ہیں۔ یہ ایک المیہ ہے کہ وہ لوگ جو معاشرے کو سچائی سے روشناس کراتے ہیں، خود ایسی حقیقت کا شکار ہیں جسے سننا بھی اذیت ناک ہے۔
حکومت کو میڈیا ورکرز کے حقوق کے تحفظ کے لیے سخت قوانین بنانے اور ان پر عمل درآمد یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔
صحافتی تنظیموں کو اپنی ترجیحات تبدیل کر کے میڈیا ورکرز کے مسائل حل کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔
حکومت کو چاہیے کہ میڈیا مالکان کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے ملازمین کو بروقت تنخواہیں اور دیگر مراعات فراہم کریں۔
میڈیا اداروں کو اپنے ملازمین کے لیے ذہنی صحت کی سہولیات اور مشاورت فراہم کرنی چاہیے تاکہ وہ دباؤ سے نکل سکیں۔
میڈیا انڈسٹری کے ورکرز وہ ستون ہیں جو اس انڈسٹری کو قائم رکھتے ہیں، لیکن ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافی اور استحصال اس ستون کو کمزور کر رہا ہے۔ یہ وقت ہے کہ حکومت، صحافتی تنظیمیں، اور میڈیا مالکان ایک نئے عزم کے ساتھ اس انڈسٹری کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لیے اقدامات کریں۔ میڈیا کارکنان کی فلاح و بہبود کے بغیر اس انڈسٹری کی ترقی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
یہ مضمون ایک پکار ہے، ان تمام لوگوں کے لیے جو اس انڈسٹری کے ساتھ جڑے ہیں، تاکہ وہ میڈیا ورکرز کو وہ عزت اور حقوق دیں جن کے وہ مستحق ہیں۔(مظہر جلالی)۔۔۔۔