تحریر: آصف علی سید
صحافت ہی تو مرگئی ہے ہمارے ملک میں۔ جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ہر صحافی کو آگے بڑھنا چاہیے بہت اچھی بات ہے۔ اخبار پوری دنیا میں ختم نہیں ہوئے سوائے پاکستان کے۔ کیونکہ اخبارات کے سینئر ترین بزرگ ایڈیٹران نے ہی اخبارات کو ختم کرانے سب سے زیادہ کردار ادا کیا۔ پروفیشنل صحافی کی اب اداروں کو ضرورت ہی کہاں ہے ادارے تو چاہتے ہیں وہ صحافی مل جائے جس کے تعلقات ایسے ہوں کہ وہ پیسہ کماکر دے سکے اور میڈیا مالکان کے پھنسے ہوئے کام نکلوا سکے۔ سینئر یا پروفیشنل صحافی کے بجائے کام چلانے والے لوگوں کو ملازمت مل جاتی ہے جس سے دونوں کا کام نکل جاتا ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس۔ ڈیجیٹل ایپس اور انٹرنیٹ کا استعمال سب کو ہی سیکھنا چاہیے وقت کی ضرورت ہے لیکن صحافی کے لیے روزگار کے مواقع بھی پیدا کرنے چاہیے نہ کہ انھیں بےروزگار کرنے کے مواقع ڈھونڈیں جائیں۔ صحافت صرف ہمارے ملک میں ہی ایک ڈراونا خواب بن کر رہ گیا ہے۔ جبکہ غیرملکی میڈیا ادارے ہمارے ہی ملک میں جن صحافیوں کو ملازمت دے رہے ہیں وہ ہمارے لوکل اداروں میں کام کرنے والے صحافیوں سے دو سو فیصد خوشحال ہیں۔ ہمارے ملک میں اب چینل مالکان یہ پوچھتے ہیں کہ مہینے کا کون سب سے زیادہ دے سکتا ہے اس کو ہی ٹھیکہ دے دیا جاتا ہے۔ اچھی اچھی باتیں لکھنے اور کرنے سے صحافت یا صحافی کے حالات کبھی ٹھیک نہیں ہوں گے۔۔۔ (آصف علی سید)۔۔