تحریر: جاوید صدیقی۔۔
تمام نشر و اشاعتی اداروں کو مکمل تحفظ فراہم کرنا ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ آزادی صحافت پر قدغن جمہوری روایات اور تقاضوں کے منافی ہے جب تک نشر و اشاعتی ادارے اور ملازمیں خود کو عدم تحفظ کا شکار محسوس کرتے رہیں گے اس وقت تک وہ اپنے منصبی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کرسکیں گے کیونکہ صحافت گھٹن دباؤ اور جبر کے زیر اثر نہیں رہ سکتی۔ اختلاف اور احتجاج کا حق اور طریقہ آئین نے دیا ہے لیکن غنڈہ گردی اور دہشتگردی کی کسی طور اجازت نہیں ۔کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ منفی انداز اپنائے۔ جیو اور جنگ پر حملے میں مشتاق سرکی صحافی کا ذکر آرہا ہے صحافی کبھی بھی کسی سیاسی پارٹی کا حصہ نہیں بنتا گر کوئی ایسا کرتا ہے اوراپنی ذاتی مراعات اور خواہشات کی تکمیل پر ایسا کرتا ہوا پایا جائے تو جرنلسٹ یونین اور کلب کے آئین کی مطابق اسکی رکنیت منسوخ کردی جاتی ہے تاکہ اس صحافی کے منفی رویئے سے کلب اور یوجیز بدنام نہ ہو۔ صحافت کے بھیس میں سیاسی کارندے کی گنجائش یوجیزاورکلب میں ہرگز ہرگز نہیں ہے۔ کسی بھی نشر و اشاعتی اداروں کے حملوں پر میڈیا پرسن اوربلخصوص صحافی کا ملوث ہونا قابل افسوس اور شرم کا مقام ہے۔ پریس کلب یوجیز اور پاکستان سینٹرل ڈیسک ایسوسی ایشن کی مشترکہ بیان نے ایسے واقعات کی شدید مزمت کی ہے اور صحافیوں کے مطالبات کیلئے یوجیز کی اہمیت اور پلیٹ فارم کو واضع کیا ہیکہ کوئی بھی صحافی سیاسی پلیٹ فارم پر سرگرم نظر آئے تو اسکا صحافت سے قطعی تعلق نہیں ہوگا۔ تمام یوجیز اور کلب کے ذمہداران نے پاکستان بھر کے نشر و اشاعتی اداروں کی فل پروف سیکیورٹی کو یقینی بنانے کیلئے ریاستی اداروں اور صوبائی حکومتوں سے امید کی ہے کہ جلد از جلد سیکیورٹی فراہم کی جائیں۔میٹھادر پولیس نے جیو نیوز پر حملے کا مقدمہ دہشتگردی ایکٹ تحت درج کرلیا ہے مقدمہ میں مشتاق سرکی گروپ کے تیرہ ملزمان کو گرفتار ظاہر کیاگیا ہے۔مقدمہ میں مشتاق سرکی سمیت ڈیڑھ سے دو سو افراد کو مفرور قرار دیا گیا ہے۔مقدمہ جیو جنگ کے سیکیورٹی سپروائزر کی مدعیت میں درج کیا گیا۔ ۔ (جاوید صدیقی)۔۔