چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ثمینہ ملک کی کمرہ عدالت سے روانگی کیساتھ صحافی بھی کمرہ عدالت سے باہر آنے پر چیف جسٹس برہم ، تین چار کرائے کے صحافی جا کر گالیاں دینا شروع کر دیں گے۔سپریم کورٹ/ پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلرز کی تعیناتیوں کے معاملے میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔ ریکٹر اسلامی یونیورسٹی ثمینہ ملک کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے۔دوران سماعت چیف جسٹس اور وکیل اسلامی یونیورسٹی کے درمیان تلخ کلامی ہوئی ،اسلامی یونیورسٹی کے وکیل ریحان الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ آپ نےالزام لگایاکہ میڈیکل سرٹیفکیٹ جعلی ہے، ڈاکٹرثمینہ کودیکھ لیں، سرٹیفکیٹ کیسے جعلی ہے؟اسلامی یونیورسٹی کے وکیل نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی پر اعتراض کر دیا،سماعت میں وقفہ کیا گیا بعدازاں چیف جسٹس کے حکم پر ریکٹر اسلامی یونیورسٹی ثمینہ ملک وہیل چیئر پر سپریم کورٹ میں پیش ہوگئیں۔سماعت میں وقفہ کے بعد چیف جسٹس اور وکیل ریکٹر اسلامک یونیورسٹی ریحان الدین گولڑہ کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔ چیف جسٹس نے پولیس کو ہدایت دی جس پر پولیس اہل کاروں نے وکیل ریحان گولڑہ کو روسٹم سے ہٹا دیا۔چیف جسٹس نے ہدایت دی کہ ڈاکٹر ثمینہ میڈیا کے قریب کیا کر رہی ہیں انہیں یہاں بلائیں؟ پھر ان سے پوچھا کہ آپ اجلاسوں میں شرکت کیوں نہیں کرتیں؟ثمینہ ملک نے کہا کہ میں دوائی کے زیر اثر ہوں کچھ وقت دیں سوالات کے جواب دے دوں گی۔اس پر چیف جسٹس برہم ہوئے اور کہا کہ آپ کو ڈرامہ کرنا ہے تو یہاں سے چلی جائیں۔ چیف جسٹس نے ثمینہ ملک کو کمرہ عدالت سے جانے کی ہدایت کر دی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تین چار کرائے کے صحافی جا کر گالیاں دینا شروع کر دیں گے، گالم گلوچ کرو تو سب ٹھیک ہے، سب سے آسان کام چیف جسٹس کو گالیاں دینا ہے، میں نے صرف ایک سوموٹو نوٹس لیا تھا وہ بھی خود سے نہیں لیا کیا ہم پھر توہین عدالت کا نوٹس لے کر جیل بھیجنا شروع کر دیں؟چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ پورے پاکستان میں ایک ہی خاتون ملی ہے جو ہر وقت بیمار رہتی ہے؟ لوگوں کو میڈیا پر ہائیر کرکے گالم گلوچ شروع کر دی جائے گی، باہر کے ممالک بھی اسلامک یونیورسٹی کے ٹرسٹیز ہیں، اسلامک یونیورسٹی کی ریکٹر کو برقرار رکھنا ہے یا نہیں وفاقی حکومت فیصلہ کرے۔