تحریر: یوسف عالمگیرین
آج کل کے دور میں اگر کسی شعبے کو سب سے زیادہ نان ٹیکنیکل سمجھا جاتا ہے اورہرکوئی خود کو اس کا یکسپرٹ سمجھتا ہے تو وہ شعبہ میڈیا ہے۔ جس شخص نے کسی میڈیا سکول یا یونیورسٹی کی شکل نہیں دیکھی ہوتی، جس نے کبھی کسی اخبار کے دفتر کی سیڑھیاں نہیں چڑھی ہوتیں، جس کو یہ بھی معلوم نہ ہو کہ میڈیا روٹین یا میڈیا سوشیالوجی کس بلا کا نام ہے وہ بھی خود کو کسی اصلی اور وڈے میڈیا ٹائیکون سے کم نہیں سمجھتا۔ اور جو لوگ پچھلے پچیس پچیس، تیس تیس سال سے پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ وابستہ ہیں وہ اُن کے سامنے ’حیف‘ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ میڈیاایک ٹف پروفیشن ہے۔ جسے کوئی بھی یونیورسٹی یا کالج سے فارغ ہونے والا نوجوان بطورِ پروفیشن جوائن کرتا ہے تو اُسے اپرنٹس صحافی گردانا جاتا ہے۔ وہ انتہائی سینیئر اور کہنہ مشق ایڈیٹرز، چیف رپورٹرز اور نیوز ایڈیٹرز کے زیرِ تربیت رہتے ہوئے اس شعبے میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ پریس کلب کسی دور میں صحافیوں کی تربیت کے مرکزگردانے جاتے تھے کہ وہاں چائے کی میزوں پر اکثر سینیئر صحافیوں کے تجربات اور مشاہدات سننے کو ملا کرتے ۔ ہم لوگ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں زیرِ تعلیم تھے توڈاکٹر مسکین حجازی، ڈاکٹر مہدی حسن، ڈاکٹر شفیق جالندھری، ڈاکٹر اے آر خالد ، ڈاکٹر مجاہد منصوری اور جی ایم نقاش ایسے اساتذہ ہماری علمی اور پیشہ ورانہ تربیت کرتے دکھائی دیتے۔ پھر ان اساتذہ کی وساطت سے ہمارے شعبے میں ملک کے سینیئر اور بڑے صحافی تشریف لاتے اور طلباء سے ملاقات اور گفتگو کرتے تو اس طرح سے نوجوان صحافیوں کی گرومنگ ہوجاتی۔ ہمارے اساتذہ کی جانب سے ایڈیٹنگ، رپورٹنگ اور تعلقاتِ عامہ سے متعلق دئیے گئے لیکچررز اُن کے سنائے گئے واقعات اور ٹِپس آج بھی ہمارے ذہنوں میں نقش ہیں۔
میرے جیسے اکثر طلباء دورانِ تعلیم کسی نہ کسی اخبار میں پارٹ ٹائم جاب بھی کررہے ہوتے جس سے تھیوری کے ساتھ ساتھ اُنہیں آن دی جاب ٹریننگ اور اعتماد بھی حاصل ہوتا۔ میں نے پاکستان کے بعض چوٹی کے صحافیوں کو عام صحافتی کارکن کے روپ میں بھی دیکھا ہے اور آج وہ اپنی قسمت اور محنت کے بل بوتے پر صحافت میں بڑا نام ہیں۔گویا ایک سفر ہے جس سے گزر کر وہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ وہ ’ میڈیا مین‘ ہیں۔
لیکن آج کل جب ادھر اُدھر نظر دوڑائی جائے تو ایسے ایسے لوگ میڈیا ٹائیکون ہونے کا دعویٰ کررہے ہوتے ہیں جو صحافت کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا میں ہر وقت افراتفری کی سی کیفیت رہتی ہے۔بہت سے محکموں میں سب سے کمزور شعبہ پبلک ریلیشنگ کا ہوتا ہے کہ اُس پر ایسے لوگ تعینات کردئیے جاتے ہیں جو میڈیا کی شدبُد نہیں رکھتے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مذکورہ محکموں میں پی آر کا شعبہ تو ہوتا ہے لیکن اُنہیں بائی پاس کرکے دوسرے شعبوں کے لوگ میڈیا کے ساتھ رابطے کرکے خود کو لائم لائیٹ میں لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس کی ایک مثال حال ہی میں سامنے آئی ہے جب ایک محکمے کے صوبائی ڈی جی نے مختلف چینلز پر انٹرویو دینے شروع کردئیے تو خود اُن کی اپنی ڈگری کے حوالے سے سوالات اُٹھنے شروع ہوگئے۔ بات اس حد تک بڑھ گئی کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ازخود نوٹس لینا پڑا تاکہ ڈگری کا حتمی فیصلہ ہوسکے۔ دوسری طرف محکمے کے چیئرمین کو مداخلت کرنا پڑی اور یہ آرڈر جاری کرنا پڑا کہ محکمے کے حوالے سے کوئی آفیسر کسی قسم کا کوئی بیان یا انٹرویو نہیں دے گا اور ایسا صرف محکمے کے مقرر کردہ ترجمان کی جانب ہی سے ہوگا۔ متعلقہ محکمے میں یقیناًپی آر کا کوئی سیٹ اپ ہوگا۔ کوئی ڈی جی یا ڈائریکٹر پی آر بھی ہوگا تو اس کو فعال ہونا چاہیے اور جو پریس ریلیز یا انفارمیشن عوام الناس یا میڈیا کے لئے جاری کی جانی ہو وہ چیئرمین کی اپروول حاصل کرکے ایشو کی جائے اس پر کوئی سوالات اٹھیں تو اُن کا جواب بھی محکمانہ طور پر باقاعدہ ڈسکس کرکے اس انداز میں دیا جائے کہ معاملات کی لسی بنانے کی بجائے ایک مدبرانہ اور مناسب رسپانس دیا جائے اور ایشو کو ہمیشہ کے لئے Kill کیا جائے۔ دوسری صورت میں محکمہ جتنی بھی اعلیٰ کارکردگی دکھا رہا ہو اور جانفشانی سے کام کررہا ہو اُس پر متعصب پن اور غیر سنجیدگی کا ٹھپہ لگتے دیر نہیں لگتی۔ الغرض حکومت کے تمام اہم اداروں میں پی آر ڈیپارٹمنٹ میں ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز صرف اور صرف میڈیا بیک گراؤنڈ کے حامل تجربہ کار افراد ہی کو تعینات کیا جائے اور ان کی تعیناتی فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعے عمل میں لائی جائے۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن واحد ادارہ ہے جو کسی بھی شعبے کے موزوں ترین اور تجربہ کار لوگوں کی تلاش اور تعیناتی کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ڈائریکٹر پی آر تجربہ کار ہوگا تو وہ پھر نیچے اپنی ٹیم بھی بہتر انداز میں تیار کرسکے گا دوسری صورت میں حکومت اور حکومتی اقدامات جگ ہنسائی کا باعث بنتے رہیں گے کیونکہ میڈیا ہینڈلنگ باقاعدہ ایک سبجیکٹ ہے۔ میڈیا ہینڈلنگ میں مین ہینڈلنگ (manhandeling) جیسی کوئی چیز نہیں اور نہ ہی اس کے ذریعے میڈیا پر پابندیاں عائد کرنا یا صحافیوں کو اُن کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے سے روکنا ہے۔ میڈیا ہینڈلنگ درحقیقت میڈیا interaction ہے جس میں مختلف محکمے اپنے پی آر شعبے کے ذریعے اپنی کارکردگی سے عوام الناس کو آگاہ کرنے کے لئے مطلوبہ معلومات میڈیا کو فراہم کرتے ہیں اور اُن کا فیڈبیک موصول ہونے پر اپنی پالیسیاں وضع کرتے ہیں۔ مختلف محکمہ جات کو میڈیا ہینڈلنگ اور میڈیا ٹرائل کے درمیان فرق سے بھی آگاہ ہونا چاہیے۔ جو معاملات زیر سماعت ہوں تواعلیٰ عدالتوں یا کسی بھی دیگر عدالت میں اُن کی پروسیڈنگز کو بنیاد بنا کر میڈیا ٹرائلز مناسب نہیں ہوتا۔
ان دنوں ملک بھر کے مختلف علاقوں سے لوگوں کے بینک اکاؤنٹ ہیک ہورہے ہیں اور لوگوں کی جمع پونچی ہتھیائے جانے کی خبریں موصول ہورہی ہیں لیکن سٹیٹ بینک کا شعبہ پبلک ریلیشنز میڈیا کے ذریعے عوام الناس میں پائے جانے والے خوف وہراس اور غیر یقینی صورتحال سے نمٹنے کے لئے کوئی موثر میڈیا پالیسی سامنے لے کر نہیں آیا۔ یوں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں مختلف نوعیت کی رپورٹنگ ہورہی ہے جو یقیناًایک نیگیٹو امر ہے۔۔