تحریر: ارم لودھی، کراچی۔۔
ہر واقعہ ہر افواء خبر نہیں ہوتی، نہ ہی لال ڈبوں میں بھاگتے دوڑتے سنسنی خیز الفاظ بریکنگ نیوز کا درجہ رکھتے ہیں۔ جس طرح اس ملک میں دہشت گرد آزاد ہے اُ س سے کہیں زیادہ آج ہمارا میڈیا منفی پروپیگنڈہ کرنے میں آزاد ہے۔افلاطون اگر زندہ ہوتا تو وہ اپنی مثالی ریاست میں ایسے زبان دراز صحافیوں کا داخلہ ہی بند کر دیتا جو حقائق کو توڑ مروڑ کرخبروں میں جھوٹ کا ترکہ لگاتے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی ایسا ملک نہیں ہے جہاں کا میڈیا اپنے ہی ملک کا تماشا بنانے کے لیئے حساس نوعیت کی خبروں کو عالمی سطح پر غلط طریقے سے پیش نہ کرتا ہوں بد قسمتی سے اس کی مثال ہمارے میڈیا میں ہی نظر آتی ہے۔نیوز چینلز پر خبروں اور تجزیوں پر مشتمل پروگرام جہاں معاشرتی خرابیوں کو منظر عام پر لانے میں اہم ثابت ہوتے ہیں تو وہیں یہ لوگوں کی نفسیات پر بری طرح سے اثر انداز ہو رہے ہیں۔معاشرے میں جرائم کے اثرات جس تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ اس حوالے سے بھی عوام کا ہر اعتبار سے باخبر رہنا ضروری ہے ایسے میں جھوٹی خبروں اور اخلاقیات سے عاری پروگراموں کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا۔آج ہر نیوز چینلز پرکئی تیس مار خان اینکرز پائے جاتے ہیں جو سرِ عام قا نون کو ہاتھوں میں لے کر آن کیمرا جھوٹی کاروائیاں کرتے پھرتے ہے توکہیں منفی پروپیگنڈا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔اِنہیں کون سمجھائے کہ ”خدارابطور صحافی آپ کا کام تو صر ف مسائل کی نشاندہی کرنا ہے تو آپ اپنا کام کرے قانون کاکام اپنے ہاتھوں میں مت لیجئے ”اس طرح کر کے آپ اپنے پروگراموں کے ذریعے معاشرے میں لاقانونیت پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ کسی بھی شخص کی خفیہ کیمروں سے ریکارڈنگ کرنا،اس کی مرضی کے خلاف بات کرنا یا کسی بھی شخصیت سے متعلق غلط بیان منسوب کرنا کسی بھی معاشرے میں اس طرح سے لوگوں کو بلیک میل کرنا چاہے وہ مجرم ہی کیوں نہ ہوں،غیر اخلاقی حرکات میں سے ہے لیکن پھر بھی ریٹنگ کے چکر میں غیر اخلاقی مناظر بار بار دیکھنے کو ملتے ہیں، حالانکہ الیکٹرانک میڈیا کو کنٹرول کرنے والے ادارے پاکستان براڈکاسٹنگ ایسوسی ایشن اور پیمراکے قوانین میں واضح طور پر درج ہے کہ ”عوام کے ذہنوں پر منفی اثرات کا سبب بننے والے آر کائیو فوٹیج اور خبروں کی ضرورت سے زیادہ تکرار نہ کی جائے،جرائم کے منا ظر کو مناسب انداز میں محدود رکھا جائے۔ اور انہیں دلفریب بنا کرپیش نہ کیا جائے کہ جس سے جرائم کی جانب رہنمائی ملے “مگر قوانین ہونے کے باوجوداِن واقعات کو سب سے زیادہ کوریج دی جارہی ہے جو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔
ٹی وی چینلز ایک کٹ پتلی بن کر رہ گئے ہیں کسی بھی خبر کے لئے لفظوں کے درست چناؤ کے بجائے بگاڑ کر پیش کیا جانا ایک عام فیشن بن گیا ہے۔ ان نا مناسب لفظوں کے استعمال سے حساس نوعیت پر مشتمل واقعات کے معنی یکسر تبدیل ہوکر رہ جاتے ہیں۔ حادثات سے متعلق جاں بحق اور زخمیوں کے اعداد و شمار میں اس حد تک غلطیاں کی جاتی ہے کہ اگر ایک چینل اعداد و شمار میں غلط بیانی کر رہا ہے تو باقی چینلز بھی اُن کی پیروی میں بنا تحقیق کیئے وہی اعداد و شمار نشر کر رہے ہیں۔یہ ہی فیک نیوز متاثرین کے لئے پریشانی کا سبب بن سکتی ہے۔
الیکٹرانک میڈیا ذرائع وابلاغ میں فوری خبر کے حوالے سے اہم تصور کیا جاتا ہے لیکن اس فوری خبر میں بہت سی اہم باتوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ کسی بھی خبر کو سب سے پہلے نشر کرنے کا جنون اس قدر بڑھ گیا ہے کہ معمولی نوعیت کے واقعات بھی بنا تصدیق و شواہد کے خبروں کا منفی حصہ بنا کر پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اورواقعے کے مناظربار بار TVاسکرین پر دیکھا کر یہ باورد کیا جاتا ہے کہ سب سے پہلے یہ خبر صرف انکے چینل نے نشر (بریک) کی۔ اس تمام صورت حال سے ناظرین کے لئے یہ اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ نیوز چینلز قوم کو ہم وقت آگاہ رکھنے کا اہم فریضہ انجام دے رہے ہیں یا پھر ریٹنگ کی دوڑ اخلاقی معیارکوپامال کیا جارہا ہے؟ نیوز چینلز پرمنفی کوریج کا ایک لامتناہی سلسلہ یوں ہی جاری رہتا ہے، رپورٹنگ چاہے افغانستان کے حالات پرہوں، قدرتی سانحات پر یا پھر کراچی کے عبداللہ ہارون روڑپر بلڈنگ سے گرنے والے اویس کی،میڈیا پرجس طرح سے دل دہلا دینے والے مناظر دیکھنے کوملتے ہے وہ ناقابل بیان ہے۔
موجودہ حالا ت کے تناظر میں منفی خبروں کے پھیلاؤ کی روک تھام بے حد ضروری ہے۔ ماضی میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کی جانب سے ٹی وی چینلز پر غیر اخلاقی اور معاشرے پر منفی اثرات مرتب کرنے والے پروگراموں اور خبروں پرپابندی عائد کرنے سے متعلق معتدد قراردادیں منظور کی گئیں لیکن اس پرکوئی عمل درآمد نہ ہوسکا۔ دسمبر ۴۱۰۲ء میں تو پیمرا کی جانب سے یہ انکشاف بھی سامنے آیا کہ ان اداروں کے پاس ایسا کوئی جدید نظام ہی نہیں جس سے ٹی وی چینلز پرنشر ہونے والے قابل اعتراض مواد کو روکا جا سکے اس حوالے سے بے لگا م میڈیا کوکنٹرول کرنے کے لئے حکومت کی جانب سے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے تا کہ فیک نیوزکی روک تھام کسی حد تک کم ہو سکے۔
بقول سقراط”الفاظ کا غلط استعمال سب سے بڑا جرم ہے”میں اس قول سے پوری طرح متفق ہوں اور بلاشبہ ہر جرم کی طرح اس جرم کی بھی سزا ہونی چاہئے لیکن اس بل کی تیاری میں یہ بات بھی یقینی بنائی جائیں کہ یہ صحافتی اقدار کو متاثر نہ کرے نہ ہی اتنے سخت اقدامات کیئے جائیں جو ریاست کے چوتھے بنیادی ستون کی بنیادیں تک ہلا کر رکھ دیں جبکہ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ میڈیا عوام کی بھلائی کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک غیر جانبدار، بہتر اور متوازن حکمت عملی کو اپنائیں۔(ارم لودھی)۔۔