تحریر: ملک سلمان
سوشل میڈیا پر چند ویڈیوز دیکھ کر مجھے سمجھ آئی کہ میڈیا گالی کیوں بنتا جا رہا ہے۔ چند منچلے مائک اٹھائے مختلف ریسٹورنٹس اور شاپنگ مال کے باہر کیمرے اٹھائے سرکاری افسران اور ڈرائیورز پر چڑھائی کررہے ہیں کہ تم یہاں شاپنگ کرنے کیوں آئے ہو؟ تم سرکاری گاڑی پر کھانا کیسے کھانے آسکتے ہو۔عجیب شرمناک مناظر ہیں کہ رپورٹر اور اینکر مایئک اٹھائے وارڈن بن کر گاڑیاں روک کر ان سے ڈرائیونگ لائسنس مانگ رہا ہے تو کہیں بائک اور گاڑی کی چابی نکال رہا ہے کہ آپ چالان کروائے بن نہیں جاسکتے۔میں 7 سال سے مختلف یونیورسٹیز میں ایڈیٹوریل رائٹنگ اور میڈیا ایتھکس پڑھا رہا ہوں۔یہ سب غیر قانونی اورغیر اخلاقی مناظر دیکھ کر میں شدید شرمندہ ہوں کہ ہم نے صحافت جیسے مقدس پیشے کونفرت کا استعارہ اور گالی بنا کر رکھ دیا ہے۔صحافتی اختیارات کے ساتھ صحافتی ذمہ داریاں بھی پڑھ لینی چاہئے۔کسی بھی صحافی یا شہری کو ہرگز یہ اختیار نہیں کہ وہ خود سے ٹریفک وارڈن بن کر گاڑیاں روکتا پھرے، پولیس بن کر گاڑیوں کی چیکنگ کرے اور پھر خود ہی جج بن کر فیصلہ دے دے کہ تمہارا چالان ہو گا،تمہاری گاڑی بند ہونی چاہئے۔کیمرے کا اس سے بدترین استعمال کیا ہوگا کہ سرکاری آفیسر پر گن پوائنٹ کی طرح کیمرہ تان کر اس کی تذلیل کریں کہ یہ میرے پیسوں کی گاڑی ہے اس کا پیٹرول میں نے ڈلوایا ہے۔ سب سے زیادہ انکم ٹیکس سرکاری ملازمین ہی دے رہے ہیں۔سرکاری ملازمین کو نکال کر پاکستان کی کل آبادی میں سے صرف چند فیصد افراد انکم ٹیکس دیتے ہیں۔ پھر کس ٹیکس کی بات کرتے ہو؟کتنے میڈیا چینلز ہیں جو آج بھی اپنے ملازمین کو کیش سیلری دیتے ہیں کہ ٹیکس نیٹ میں نہ آئیں وہاں صحافت کیا کہتی ہے۔جن صحافیوں کو ادارہ گاڑی دیتا ہے کبھی کسی کو روکا کہ تم اس پر کھانا نہیں کھانے جاسکتے،شاپنگ نہیں کرسکتے،اپنے بچوں کو سکول سے پک نہیں کرسکتے یا پھر کسی جگہ تفریح کیلئے نہیں جاسکتے۔ہرگز ایسا نہیں ہوتااور نہ ہی ہونا چاہئے،میڈیا سمیت بینک اور دیگر کارپوریٹ اداروں میں گاڑی اور فکس پٹرول دیا جاتا ہے کہ یہ ادارے کی طرف سے ہے باقی ایکسٹرا تمہارا سردرد ہے۔اسی طرح سرکاری گاڑیوں کیلئے بھی آنے جانے کا فکس پٹرول دیا جاتا ہے اگر وہ کھانا کھانے،بچوں کو پک کرنے یا تفریح کیلئے جاتے ہیں تو اپنا انتظام خود کرتے ہیں۔بلکہ آپ کی صحافت کو مذید نکھارنے کیلئے بتاتا چلوں کہ حکومت جتنا پٹرول دیتی ہے اس سے دور رہائش پزیر افسران کا گذارہ بھی ممکن نہیں انکو پاکٹ سے پٹرول ڈلوا کر مہینہ پورا کرنا پڑتا ہے۔(بعض سنیئر افسران اور اہم سیٹوں پر تعنیات افسران کا اضافی گاڑیوں کا استعمال ضرور اختیارات سے تجاوز ہے)۔حکومت سرکاری ملازمین کو جتنی تنخواہ دیتی ہے اس کے ساتھ گزر بسر کرنے والوں کو سرکاری رہائش اور گھر ملنا انکا حق ہے۔ اتنی تھوڑی تنخواہ کے ساتھ کوئی ذاتی گاڑی کیسے لے سکتا ہے؟ آپ کیا چاہتے ہیں کہ ایک آفیسر کو اگر حکومت نے سرکاری گاڑی دی ہے تو جب وہ شاپنگ یا کھانے کیلئے باہر جائے تو رکشہ یا ٹیکسی کروا کر جائے؟ بدقسمتی سے ناکام افراد سیاستدانوں اور بیوروکریسی کو گالی دیناآسان حدف سمجھ کر جو منہ میں آئے بک دیتے ہیں۔پرائیویٹ یاسرکاری گاڑیوں کو روک کر زبردستی انٹرویو کرنا کسی کی ذاتی زندگی میں مداخلت ہے اور قابل گرفت جرم ہے۔رجسٹرڈ ٹی وی چینلز کے خلاف پیمرا میں شکایت درج کروا کے ناصرف چینل پر جرمانہ عائد کروایا جاسکتا ہے بلکہ شہریوں کی ذاتی زندگی میں غیر ضروری مداخلت پر چینل کی بندش کے احکامات بھی ہوسکتے ہیں۔جہاں تک سوشل میڈیا چینلز کی بات ہے گھر بیٹھ کر سوشل میڈیا پر اپنی رائے کا اظہار کرنا ہر کسی کا حق ہے لیکن جب تک یہ چینل کسی حکومتی اتھارٹی سے رجسٹرڈ نہیں ہو جاتے کوئی بھی سوشل میڈیا چینل نہ تو پریس کارڈ جاری کرسکتا ہے اور نہ ہی ”میڈیا لوگو“ استعمال کرسکتا ہے۔ پریس کارڈز اور ”چینل لوگو“ کااستعمال غیرقانونی ہے۔اگر کوئی سرکاری ملازم اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرتا ہے تو پھر آزادی صحافت کا رونا نہ رویا جائے۔ریٹنگ کی ہوس اِس قدر بڑھ چکی ہے کہ اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا ہے،صحافتی آزادی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ دوسروں کی آزادی سلب کرلیں اور آزادی ِ صحافت کی آڑمیں جو مرضی کرتے پھریں۔حکومت اور سنئیر بیوروکریسی کو چاہئے کہ 1980کے فرسودہ وہیکل آرڈینینس میں ضروری ترامیم کر کے عدلیہ کی طرح واضح پالیسی ہو کہ سرکاری گاڑی آفیسر کی تنخواہ کی طرح ہی اسکا بنیادی حق ہے جسے وہ دفتری استعمال کے ساتھ ساتھ ذاتی اور فیملی ممبرز کی حد تک آزادانہ استعمال کرسکتا ہے۔(ملک سلمان)