media dehshat gardon k hathon istimal

میڈیا دہشت گردوں کے ہاتھوں استعمال۔۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنیوالی جعلی خبروں ، تصاویر اور افواہوں کو ذمہ داری سے روکنا ہوگا ایسی پوسٹ کی حقیقت جاننے کیلئےسرچ ایجنز ‎پر ریورس سرچ کی مدد لی جا سکتی ہے ،ان خیالات کا اظہار انفارمیشن سروسز اکیڈمی کے زیر اہتمام میڈیا مشکلات اور ابلاغی بحران کے عنوان سے دو روزہ تربیتی ورکشاپ میں سینئر صحافیوںو ماہرین نے کیا، ورکشاپ میں وزارت اطلاعات و نشریات کے انفارمیشن افسران و صحافیوں نے شرکت کی ، برطانوی نشریاتی ادارے کے سوشل میڈیا ایڈیٹر طاہر عمران نے کہا سوشل میڈیا پر سیاسی ،کاروباری و دیگر مفادات لینے کیلئے دانستہ طور پر جعلی تصاویر ، ویڈیوز اور خبریں شیئر ہو رہی ہیں ، یہ کام معروف سیاستدان اپنے سوشل میڈیا اکاونٹس سے بھی کھلے عام کر رہے ہیں جس سے عوام گمراہ ہوتے ہیں اور معاشرتی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے ، مذکورہ چیزوں کو حقیقت جاننے کی ویب سائٹس کے ذریعے بے نقاب کیا جا سکتا ہے مثلا کسی بھی تصویر یا ویڈیو کی حقیقت جاننے کیلئے گوگل ریورس سرچ کر کے با آسانی حقیقت جانی جاسکتی ہے، سینئر صحافی کترینہ حسین نے کہا دہشتگردی کے واقعہ پر اکثر وبیشتر حکومت یا ترجمان فوری معلومات نہیں دیتے جس سے افواہیں جنم لیتی ہیں ایسے میں اگر کوئی رپورٹر جاں بحق افراد کی تعداد غلطی سے زیادہ بتادے اور بعدازاں حکومت درست اعدادو شمار بیان کر دے تو بھی عوام یہ کہتے ہوئے اسکا یقین نہیں کرتے ۔ ڈاکٹر شہریار خان نے کہا پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہزاروں علما ء نے دہشتگردی کیخلاف کتابوں کی صورت میں مشترکہ فتوے دئیے ہیں لیکن اسکے باوجود دہشتگردی ختم نہیں ہو رہی اسکی ایک وجہ یہ ہے کہ کتاب بہت کم جبکہ سوشل میڈیا پر دہشتگردوں یا اْنکے ہمدردوں کی پوسٹیں لاکھوں افراد پڑھتے ہیں ، ضرورت اس امر کی ہے کہ مقابلہ کرنے کیلئے سوشل میڈیا کا بھی سہارا لیا جائے،برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹر مہرین خان نے کہا ہمارے ہاں زیادہ ترخبریں دہشتگردی کے واقعات کی دی جاتی ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہےکہ بچ جانیوالے متاثرین یا لوحقین کی زیادہ سے زیادہ خبریں دی جائیں اور اپنی خبروں میں یہ پیغام ضرور دیں کہ بحیثیت قوم ہم کسی بھی صورت دہشتگردوں کے آگے نہیں جھکیں گے ،ڈاکٹر مودت رانا نے کہا اعدادو شمار کے مطابق پشاور اور کابل کی نسبت نیویارک یا لندن میں حملے کا زیادہ خطرہ ہے لیکن لوگ پشاور یا کابل جانے سے ہچکچاہٹ کا شکار، نیویارک یا لندن بخوشی جانے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ ہمارا میڈیا پشاور اور کابل میں ایسے واقعات کو زیادہ اور بار بار رپورٹ کرتا ہے اسلئے لوگوں پر خوف طاری ہے ، دہشتگردی واقعہ کی خبر بار بار نشر نہ کی جائے اس سے سارا معاشرہ خوف و ہراس کا شکار ہوتا ہے اور دہشتگردوں کا اصل ہدف ہی خوف پھیلانا ہے یوں میڈٖیا غیر دانستہ طور پر استعمال ہورہا ہوتا ہے، ۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں