تحریر: خرم شہزاد
پاکستان کی تاریخ میں پہلا بڑا حادثہ وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت کا تھا جس کے لیے ایک انکوائری کمیشن بنایا گیا۔ اس کے بعد ہمارے پاس انکوائری کمیشنوں اور کمیٹیوں کی ایک لمبی تاریخ اور فہرست موجود ہے جو کسی نہ کسی واقعے اور موقع پر بنائی گئیں ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ میری یاداشت اور گوگل بھائی صاحب بھی کسی انکوائری کمیشن یا کمیٹی کے حتمی فیصلے سے واقفیت نہیں رکھتے یعنی قومی اور ملکی مفاد کے کسی کمیشن کی رپورٹ کبھی فائنل ہوئی اور اگر ہوئی تو منظر عام پر نہ آ سکی، لہذا اس کا ہونا اور نہ ہونا کسی عام آدمی کے لیے ایک برابر ہی رہا۔ اسی طرح ہمارے ملک میں کسی بھی بڑے مسئلے سے نمٹنے کے لیے خصوصی عدالتوں کا قیام عام سی بات ہے۔ دہشت گردی کی لہر اٹھی تو پورے ملک میں دہشت گردی کے خلاف خصوصی عدالتیں قائم کر دی گئیں۔ دہشت اوردہشت گردی کی صورت حال پھر ہمارے سامنے ہے کہ اس پر قابو پانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنے جوانوں کا خون دینا پڑا۔ ایسے ہی ملک میں بندہ مزدور کے حالات کا رونا تو بہت رویا جاتا ہے لیکن ملک بھر میں لیبر کورٹس کے ہونے کا اس بندہ مزدور کو کیا فائدہ ہوا ، یہ سوال ابھی تک مزدوروں کے ہاں وقت گزاری کا سب سے اچھا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور ہر مزدور کنونشن میں کی جانے والی دھواں دھارتقریر کا ایک حصہ ضرور اپنے حقوق کے لیے وقف ہوتا ہے لیکن لیبر کورٹس کی فعالیت بہرحال ویسی نہیں جیسے خواب ان کورٹس کے قیام کے وقت تھے۔ ملک کے طول و عرض میں کام کرنے والی درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں فیملی کورٹس کے باوجود ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ اپنے خاندانی مسائل کی وجہ سے سڑکوں پر ہیں اور ایک تماشہ عوام نے ان عدالتوں کے باہر لگایا ہوتا ہے جس سے ہر گزرنے والا عبرت تو بالکل نہیں پکڑتا ہاں البتہ ان عدالتوں کو خاندانی مسائل کے حل کے لیے ناکافی سمجھتا ہے۔ اب سنا ہے کہ حکومت میڈیا کورٹس بنانے کی طرف جا رہی ہے تاکہ میڈیا کے متعلق مسائل کو فوری حل کیا جا سکے۔
میڈیا کورٹس کے قیام پر سوال کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ میڈیا کورٹس بنانے کا خیال کیوں کر آیا تو ہمیں یہ ماننا چاہیے کہ ہمارا میڈیا جو ہر خبر پر نظر رکھنے اور ہر سچ کو بیان کرنے جیسے تمغے اپنے سینے پر سجانے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتا ہے۔ اس میڈیا منڈی میں بہت سے ایسے مسائل ہیں جو قانون کی گرفت میں آتے ہیں اور ان کا حل ہمارے اخلاقی دائرہ کار سے باہر نکل چکا ہے۔ زرد صحافت کو لفافہ صحافت میں بدلے تو زمانے ہو گئے کہ اب تو صحافت بہت ترقی کر چکی ہے۔ ادارے اخبار اور خبر بیچنے کے بجائے پریس کارڈز بیچ کر کمائی کر رہے ہیں جس کے بعد ہر قصائی اور کمہار بھی کسی نہ کسی اخبار یا چینل کا بیورو چیف نہیں تو کم سے کم نمائندہ ضرور ہوتا ہے۔ ہر دوسرے شخص کے ہاتھ میں مائیک اور کیمرہ ا ٓ جانے کے بعد اور چوبیس گھنٹے کی مسلسل نشریات کے بعد سے لائیو رپورٹنگ نے جہاں نیوز روم کو ختم کر دیا ہے وہیں کسی حادثے کے بعد سانس لینا اور تحقیق کرنا غیر ضروری ہو گیا ہے جس کی وجہ سے غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کو فروغ حاصل ہوا۔ کشمیر میں آنے والے حالیہ زلزلے میں ایسی کئی مثالیں سامنے آئیں کہ حادثے کے دس پندرہ منٹ کے بعد ہی ہر میڈیا والا اپنا مائیک حکومتی عہدیداران کے منہ میں ٹھونس رہا تھا کہ جلدی بتائیں آپ نے اب تک کیا اقدامات کئے ہیں اور ابھی تک فلاں فلاں کام کیوں شروع نہیں ہوئے۔ ٹکر چل رہی تھی کہ حکومتی اور فوجی امدادی ٹیمیں روانہ اور نیوز اینکر رپورٹر سے پوچھ رہا تھا کہ حکومت اور فوج کیا کر رہی ہے۔ غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کے ساتھ پیڈ پروگرامز اور کسی مخصوص مفاد کے لیے حکومت اور حکومتی شخصیات کو بدنام کرنے اور مخصوص طرز کے پروگرام کرنا بھی ہمارے میڈیا میں کوئی نئی اور ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ مختاراں مائی سمیت سینکڑوں ایسے واقعات ہیں جن میں میڈیا نہ صرف استعمال ہوا بلکہ ریٹنگ کے لیے ہر حد سے بھی گزرا۔ بہت سے امور پر غیر ضروری بحث کا آغاز کرتے ہوئے معاملے اور معاشرے کو نئے چورن پیچنے کے لیے میڈیا کا استعمال تو اب ایک عام سی بات ہے۔ اب میڈیا منڈی میں بحران کے نام پر کسی بھی فرد کو کسی بھی نکالنے اور اس کی تنخواہوں کو دبا نے کی جو وبا پھیلی ہے وہ ڈینگی سے زیادہ موثر انداز میں سارے میڈیا ہاوسز کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے جس سے نمٹنے کے لیے کوئی فورم نہیں اور کوئی حل نظر نہیں آیا۔ بول چینل کے ملازمین کا معاملہ تو اب شائد کسی آمریت سے سبب یا قیامت کو ہی حل ہو تو ہو ورنہ کوئی حل نظر نہیں آتا۔ الغرض ایک لمبی فہرست ہے جو میڈیا کے خلاف ترتیب دی جا سکتی ہے اور اس میں کچھ بھی جھوٹ نہ ہو جس کی وجہ سے میڈیا کورٹس اس وقت ضروری نہیں بلکہ ناگزیر ہو چکی ہیں لیکن ۔۔۔
اکثر کہانیوں کا انجام لکھتا ہوتا تھا کہ اور سب ہنسی خوشی رہنے لگے، جبکہ ہمیں ایک محترمہ نے کہا کہ اصل فساد اور سیاپا شروع ہی تب ہوتا ہے جب سارے ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔ میڈیا کورٹس کی بات بھی لیکن پر پہنچتی ہے تو کہنا پڑتا ہے کہ اصل بات تو اب شروع ہو گی کہ میدیا کورٹس اس وقت ضروری نہیں بلکہ ناگزیر ہو چکی ہیں لیکن ۔۔۔ لیکن کیا یہ میڈیا کورٹس مسائل کا حل ہیں؟ کیا دوسری خصوصی عدالتوں کی طرح اس میں مقدمات کو لٹکایا نہیں جائے گا؟ کیا ان عدالتوں کی سزاوں کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں بھی قابل عمل سمجھا جائے گا اور کوئی قانونی موشگافی مجرم کو فائدہ دینے کے لیے استعمال نہیں ہو سکے گی؟ کیا یہ مان لینا چاہیے کہ ہماری عام عدالتیں نظام انصاف میں ناکام ہو چکی ہیں کہ ہر معاملے اور مقدمے کے لیے الگ اور خصوصی عدالت کی ضرورت پڑ جاتی ہے؟ میڈیا کورٹس کا نعرہ تو لگایا جا رہا ہے لیکن اس کے لیے وہ موثر قانون سازی کون کرئے گا اور کب تک کرئے گا جس پر سارے فریق بھلے متفق نہ ہوں لیکن انصاف ممکن ہو؟
افسوس کی بات یہ ہے کہ آج تک قائم کی گئی خصوصی عدالتوں کو متعلقہ معاملات کے لیے فوری طور پر قائم تو کر دیا جاتا ہے لیکن ضروری اور مکمل قانون سازی نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے سائل دربدر پھرتا ہے اور مجرم ایک بار پھر وکیلوں کی مہارت اور قانونی موشگافیوں کے سہارے سے نہ صرف نکل جاتا ہے بلکہ سائل اور قانون کا مذاق بھی اڑا رہا ہوتا ہے۔میڈیا کے بہت سے مسائل اور حرکتیں ایسی ہیں جو قانونی جکڑ میں شائد اس طرح سے قید نہ کی جا سکیں جیسا کہ ضرورت ہے جس کی وجہ سے یہ عدالتیں بھی مجرموں کو سزا دینے کے بجائے نکل جانے اور کلین چٹ دینے کا بہانہ بن سکتی ہیں۔ اپنے انہی تجربات کی وجہ سے میڈیا کورٹس نا منظور نا منظور ۔۔ بالکل بھی نا منظور ۔۔۔ قطعی نا منظور ۔۔۔ مکمل نا منظور ۔۔۔ حتمی نا منظور ۔۔۔ اصولی نا منظور ۔۔۔ تجرباتی نا منظور ۔۔۔ (خرم شہزاد)۔۔۔
(مصنف کی تحریر سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)