تحریر: جاوید صدیقی
کراچی منی آف پاکستان کہلانے والا شہر جہاں روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں بیرون صوبوں سے آتے ہیں اور یہیں کے ہوکر رہ جاتے ہیں۔ کراچی نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں پہچانا جانا جاتا ھے اس کی ایک بڑی وجہ سمندر بھی ھے جہاں سے بین الاقوامی سطح پر تجارت ہوتی ھے، کراچی معاشی حب بھی ھے اور فن و فنکار کی ایک بہت بڑی پرکشش مقام بھی۔ سابق صدر و ریٹائرڈ جنرل سید پرویز مشرف نے اپنے دور اقتدار میں چند اہم اور نئی ترجیحات اور روشن خیالی و عوامی سہولیات کے پروگرام بھی پیش کئے، سیاسی اختلافات ایک جانب لیکن عملی اقدام کو آج بھی مخالفین اعتراف کرتے ہیں، جن میں میڈیا انڈسٹری کے فروغ اور روزگار کا بہترین ذریعہ عوام کو دیا۔ نجی سطح میں شروع ہونے والا پہلا بین الاقوامی چینل اےآروائی ڈیجیٹل تھا جسکی نشریات سنہ دو ہزار میں شروع ہوئی جبکہ جیو کی نشریات سنہ دو ہزار دو اسی طرح ٹی وی ون، آج نیوز، ہم چینل، سی این بی سی اور پھر یہ نئے نجی چینل کا سلسلہ بڑھا ہی رھا، لاہور اور اسلام آباد میں کئی سالوں کے بعد چینل لاؤنچ ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے لاہور اور اسلام آباد میں کراچی سے ان شہروں میں منتقل ہوگئے۔ اس وقت مقامی چینل کے علاوہ اردو چینلز چند رہ گئے ہیں، سابق صدر و ریٹائرڈ جنرل سید پرویز مشرف کی خواہش تھی کہ پیمرا جوکہ میڈیا انڈسٹری کو ضابطہ اخلاق اور قوانین میں باندھنے کا ادارہ ھے اسے آگاہ کیا کہ کراچی میں میڈیا سٹی بنایا جائے جو دبئی کی طرز پر کراچی میں ھو جس کیلئے سندھ حکومت کو فزیبیلٹی رپورٹ بنانے اور زمین کا انتخاب کیلئے حکم دیا لیکن وقت نے ساتھ نہ دیا اور پھر سنہ دو ہزار سات بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سنہ دو ہزار آٹھ کو پاکستان کے مقتدر اعلیٰ یعنی صدر پاکستان آصف علی زرداری بننے، اس وقت وزیراعظم کیلئے سید یوسف رضا گیلانی منتخب ہوئے جو پاکستان پیپلز پارٹی کے ہی تھے اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ بھی پاکستان پیپلز پارٹی ہی کا تھا گویا ایک مکمل پاور فل بااختیار حکومت پاکستان پیپلز پارٹی کی ہی تھی کیونکہ شروع کے چند سالوں تک اٹھارہ ویں ترمیم نہی آئی تھی اور یہ ترمیم بھی آصف علی زرداری لائے تھے۔ اس وقت اگر پاکستان پیپلز پارٹی چاہتی تو کراچی میں میڈیا سٹی کا قیام ممکن ہوسکتا تھا اور کراچی ایک جانب میڈیا میں راج کرتا تو دوسری جانب روزگار کے بے انتہا مواقع میسر آتے نجانے کیوں پاکستان پیپلز پارٹی اس بابت آنکھ بند کئے بیٹھی رہی۔ اب سنہ دو ہزار چوبیس میں دوبارہ صدر کے مقام پر آصف علی زرداری برجمان ہیں، چیئرمین سینیٹ انہی کا ھے اور کئی بڑے عہدے بھی موجود ہیں مگر گزشتہ کل دو ہزار آٹھ کی طرح آنکھ بند کئے بیٹھے ہیں اب کراچی میں میڈیا سٹی تو کجا میڈیا چینل رہنا بہت کم ہوگیا ھے گویا کراچی شہر کو میں میڈیا سٹی مدفن کردی گئی ھے۔ کراچی کے سینئر ترین صحافی رپورٹرز و اینکرز نے بھی چپ سادھ لی ھے سوال تو یہ پیدا ھوتا ھے کہ یہ بہترین پلان پرویز مشرف کا تھا ؟؟ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ھے کہ بڑھتی آبادی والے شہر کو روزگار کے مواقع کو کیوں مدفن کیا ؟؟ کیا یہ سازش ھے یا منفی پلاننگ بحرکیف کچھ بھی ھو حکومت وقت اور ریاست پاکستان کو چاہئے کہ وہ پیمرا کو پابند کرے کہ جو جس قدر بڑا گنجان شہر ھے وہاں اسی قدر میڈیا ہاؤس بنانے کی شرط رکھی جائے تاکہ شہر پر معاشی و مالی دباؤ کم ہوسکے اور صحافتی اقدار، تہذیب اور صحافتی پروفیشنل ازم کی بڑھوان ممکن ہوسکے۔ امید ھے کہ کراچی میں میڈیا ہاؤس کی تعداد میں اضافہ اور ایک مخصوص مقام دبئی کی طرز پر کراچی میڈیا سٹی بنادیا جائے تاکہ ایک ہی جگہ تمام چینلز ہوں۔ ھم موجودہ حکومت سے اچھا گمان رکھتے ہیں اور اچھے نتیجہ کی امید بھی۔۔۔(جاوید صدیقی)۔۔