تحریر: چودھری حماد رضا
میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون تصور کیا جاتا ہے اور میڈیا کی آزادی کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈ ی کی حیثیت رکھتی ہے پاکستانی میڈیا کو عروج اس وقت نصیب ہوا جب ایک آمر جنرل پرویز مشرف نے وقت کی ضرورت کو سمجھتے ہوۓ پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلز کو لائیسنز کے اجراء کا فیصلہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستانی میڈیا کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا اس سے نا صرف روزگار کے بہت سے مواقع میسر آئے بلکہ عوام الناس کو ملکی درپیش مسائل کا بھی صیح طور پر ادراک ہوا اس سے پہلے لوگوں کو صرف ایک سرکاری چینل میسر تھا جو گاہے با گاہے حکومتی نمائیندگی کرتے نظر آتا تھا لیکن پرائیویٹ لائسنز کے اجراء نے اس صورتِ حال کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا۔موجودہ حکومت کے اقتدار سنبھالتے ہی میڈیا کو مسلسل دبانے کی کو شش کی جا رہی ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ موجودہ حکومت پاکستانی میڈیا کو ایران سعودی عرب یا شمالی کوریا کی طرز پر کنٹرول کرنا چاہ رہی ہے تو یہ غلط نہیں ہو گا فواد چودھری تو اس بات تک کا بھی عندیہ دے چکے ہیں کہ آءیندہ دس سال میں تمام نیوز چینل بند کر دیے جائیں گے اسی قسم کی ایک پالیسی جنرل ضیاءالحق کے دور میں بھی اپنائ گئ تھی جس کی وجہ سے پاکستانی فلم انڈ سٹری بحران کا شکار ہوئ اور آج تک اٹھ نہ پائ ۔
آج کے میڈیا ورکر کو مختلف قسم کی پریشانیوں نے گھیرا ہوا ہے وہ کام کر کے بھی تنخواہ سے محروم ہے تنخواہ کے لیے مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے اور پھر بھی یہ امید نہیں کہ تنخواہ پوری مل پائے گی بھی یا نہیں اور یہ بھی ڈر کہ نوکری سے کسی بھی وقت بغیر نوٹس کے نکالا جا سکتا ہے اور ایک دوسرا طبقہ بھی ہے جو اپنی جگہ پر پریشان ہے یہ وہ لوگ ہیں جو ملک کی مختلف یو نیورسٹیوں میں میڈیا اسٹڈیز کے طالبعلم ہے اور مستقبل میں صحافت کے ساتھ وابستہ ہونے کے خواہشمند ہیں میڈیا کی اس تنزلی کو دیکھ کر وہ بھی گو مگوں کی کیفیت میں ہی،،ں حکومت وقت کو چاہیے کے وہ صحافت کو دبانے کی بجائے اس کو فروغ دینے کے لیے عملی اقدامات کرے تا کہ یو نیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلباء جو صحافت پڑھ رہے ہیں ان کا مستقبل اور جو صحافت سے وابستہ ہیں ان کا روزگار بچ سکے ،،(چودھری حمادرضا)۔۔
(عمران جونیئر ڈاٹ کالم کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)