تحریر:خرم شہزاد
کبھی کبھی ہمیں ایسی تصاویر دیکھنے کو ملتی ہیں جن میں کھدائی کرنے والی مشین کھڈے میں ہی گری ہوتی ہے، ایسی تصاویر پر بہت خوشی سے نشان عبرت اور دوسروں کے کھڈا کھودنے والے کا انجام لکھا جاتا ہے اور بہت دیرتک ایسی تصاویر ہماری ہنسی کی وجہ بنتی ہیں۔ آج کل ایسی ہی ہنسی ہمیں ٹی وی اسکرینیں اور اخبارات دیکھ کر ہوتی ہے جب میڈیا بحران کا ذکر ہوتا ہے تو ایک کمینی سی خوشی محسوس ہوتی ہے کہ کل تک دوسروں کے بحرانوں پر پروگرام کرنے والوں کی اپنی کشتیاں آج بھنور میں ہیں۔ افسوس مگر یہ کہ ہماری خوشی ایک مکمل خوشی میں نہیں ڈھلتی کیونکہ اس وقت میڈیا میں جو صورت حال ہے اسے بحران نہیں کہا جا سکتااور نہ ذاتی حیثیت میں ہم اسے بحران سمجھتے ہیں۔ جیسے دانش کا بحران تب آتا ہے جب لوگ سوچنا اور لکھنا پڑھنا چھوڑ دیں لیکن کاغذ کی قیمت بڑھنا اور کتابوں کی کم چھپوائی کو کسی صورت دانش کا بحران نہیں کہہ سکتے البتہ کتاب کے مسائل ضرور کہا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اگر پاکستان دنیا کا پر امن ترین ملک بن جائے، ہنگامے ، دھرنے اور فسادات ڈھونڈنے سے بھی نہ ملیں ۔۔ سیاست دان محب الوطن اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے والے ہو جائیں تو واقعی میڈیا ایک بحران کا شکار ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس تو اس سب کے علاوہ دکھانے کو کچھ ہے ہی نہیں اور نہ ہی ہمارے نیوز چینلز نے ایسی کبھی کوئی پلاننگ کی ہے کہ عوام کو کوئی اچھی خبر اور بات بھی بتائی جائے۔ خبر کا یہ بحران دنیا کا میڈیا تو شائد کچھ دن برداشت کر جائے لیکن ہمارا میڈیا تو اس بحران میں آدھا دن نہیں گزار سکے گا اور سارے کے سارے چینلز منہ کے بل آ گریں گے۔ اس وقت اشتہارات کی کمی اور ادائیگیوں میں عدم توازن جیسے بہانوں کو میڈیا میں بحران کے نام سے پیش کیا جا رہا ہے لیکن یہ میڈیا کے مسائل ہیں بحران ہر گز نہیں۔ یہاں اپنے پڑھنے والوں سے یہ بھی درخواست ہے کہ کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ آپ اس مسئلے کو اس کے اصل تناظر میں دیکھیں۔ بحران اور مسائل میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے اور ان کے حل کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات بھی یقینا اسی طرح سے مختلف نوعیت کے ہوں گے، تو اگر ہم میڈیا کے بحران یا مسائل کا حل چاہتے ہیں تو ان کے لیے سب سے پہلے درست نظر اور منظر کی ضرورت ہے۔ ۔
بات ایک بار پھر میڈیا کے بحران سے شروع کرتے ہیں لیکن بات شروع کرتے ہی اگر ختم کرنی ہو تو ہمارے دوست سید بدر سعید کا ایک جملہ ہی کافی ہے جو انہوں نے کہا تو کسی اور کے لیے تھا لیکن آج کے میڈیا والوں کے لیے وہ بالکل درست ہو گا۔ وہ کہتے ہیں کہ مہنگائی اور کاروبار میں نقصان کا رونا رونے والے سبھی لوگ شام کو گھر جاتے ہوئے دونوں ہاتھوں میں فروٹ کے بھرے شاپر لے کر جاتے ہیں اور یہی موقف ہمارا بھی ہے۔ ہماری حکومتوں کا بھی یہ پرانا وصف رہا ہے کہ بجٹ خسارے کی بات کرتے ہوئے اور اداروں کے نقصان کی بیلنس شیٹس دکھاتے ہوئے جب بھی گولڈن ہینڈ شیک سکیم متعارف کرائی یا کوئی اور ایسا قدم اٹھایا ، اس کی زد میں ہمیشہ غریب اور نچلا طبقہ ہی آیا۔ آپ کسی بھی ادارے کی بات کر لیں ، وفاقی وزیر ، سیکرٹری، اسسٹنٹ سیکرٹری، جوائنٹ سیکرٹری، انڈر سیکرٹری اور نجانے کون کون سے سیکرٹریز کے ساتھ ڈائریکٹرز کی ایک لمبی لائن ملے گی اور یہ تمام سفید ہاتھی لاکھوں میں تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہوں گے لیکن جیسے ہی نقصان کم کرنے کی بات آئے گی تو ادارے سے نکالنے کے لیے بنائی گئی فہرستوں میں دسویں گریڈ سے نچلے لوگوں کی کثرت ہو گی جن کی مجموعی تنخواہ بھی شائد ایک سیکرٹری کی تنخواہ سے کم ہی نکلے لیکن نکالے وہی جائیں گے۔
میڈیا کے سیٹھوں نے بھی یہی سب کچھ سیکھا اور اب بحران و نقصان کے نام پر چھوٹے کارکنوں کو نکالا جا رہا ہے لیکن کیا واقعی میڈیا میں بحران آیا ہوا ہے اور نقصان کے باعث ادارے بندہو رہے ہیں تو جناب مجھے اس سیٹھ کے بارے میں بتائے جو اپنے ذاتی اکاونٹ سے بنک کا ڈیفالٹر ہو گیا ہو ۔ادارے کے اکاونٹ میں نقصان دکھانے کے دو فائدے ہوتے ہیں ، پہلا یہ کہ کئی درجن کارکنوں کو تنخواہ نہیں دینی پڑتی اور دوسرا بنکوں کے لون اور انکم ٹیکس والوں سے بھی جان چھوٹ جاتی ہے لیکن اپنے ذاتی اکاونٹ سے کون سے میڈیا ہاوس کا مالک نقصان میں آیا ہے اس کے بارے میں اگر کسی کے پاس کوئی خبر ہے تو سامنے لائے۔ کس سیٹھ کا ذاتی گھر فروخت ہو گیا ہے ، بچے سرکاری سکول میں آ گئے ہیں اور وہ خود کرائے کے مکان میں شفٹ ہو گیا ہے کیونکہ اس کا میڈیا ہاوس نقصان میں چلا گیا اور اس کے پاس فارغ کئے جانے والے درجنوں کارکنوں کی تنخواہیں دینے کے پیسے نہیں۔ ہے ایسی کوئی خبر تو بتائے مجھے بھی ۔۔۔ لیکن میرے پاس خبر ہے کہ کہیں میڈیا ہاوس والے اب ائیر لائن بزنس میں انٹری مار رہے ہیں تو کوئی یو این کے مختلف اداروں کے ساتھ معاملات جوڑنے کی کوششیں میں ہیں۔ کوئی ٹرانسپورٹ قدم جما رہا ہے تو کوئی فارن میں سیٹل ہونے کے چکر میں ہے۔کیا آپ کو خبر ہے کہ پاکستان میں ہوٹلوں کی ایک بڑی چین نے انکم ٹیکس بچانے کے لیے یونیورسٹی قائم کی اور اب وہ ہوٹلوں سے بھی کماتے ہیں اور یونیورسٹیوں سے بھی ان کی خوب آمدن ہے۔۔۔؟ نہیں پتہ ۔۔۔؟ چلیں پھر یہ بتا دیں کہ کیا کبھی آپ نے کوئی ایسا کاروبار کیا ہے جس میں ایک کروڑ تک یا اس سے زیادہ کی سرمایہ کاری ہو؟؟ ۔۔۔ نہیں ۔۔۔؟؟ تو پھر آپ میڈیا کے بحران ، انکم ٹیکس بچانے کے طریقے ، نئے منافع بخش کاروبار کی طرف منتقلی ، سرمائے کی گردش اور کیش آوٹ جیسی چیزیں کیسے سمجھ سکتے ہیں۔
چلیں اپنے پڑھنے والوں کے سامنے ایک صورت حال رکھتا ہوں اس پرسوچیں شائد بات آپ کی سمجھ میں آ جائے۔ کوئی نتھوخان تھا جس کے پاس تھوڑا سا سرمایہ آیا اس نے سوچا اس سے کیا کرنا چاہیے۔ چھوٹی عید آنے والی تھی تو اس نے اپنے دوست پھتو کے ساتھ مل کر جوتوں کی دکان کھول لی۔ چھوٹی عید ویسے بھی شاپنگ کی عید ہوتی ہے ، ہر کوئی کپڑے اور جوتے خریدتا ہے تو ان کی دکان خوب چلی لیکن عید کے اختتام پر دکان ایک دم سے سونی ہو گئی۔ نتھو اور پھتو نے سو روپے والی جوتی پر ڈیڑھ سو لکھا اور پھر اسے کاٹ کر ایک سو بیس روپے لکھے اور سیل لگا دی۔ جو پوچھے تو یہی جواب کہ جی کیا کریں اتنی مہنگائی میں کون کاروبار کرئے اور اب خریدار کہاں بازار آتا ہے کہ اس کی قوت خرید ہی نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ مہینے ڈیڑھ میں انہوں نے دکان کا سارا مال بیچ دیا اور دکان خالی کر دی۔ اردگرد والوں کا خیال تھا کہ نتھو اور پھتو نے یہ دکان خریدی ہوئی ہے اسی لیے اتنی ڈیکوریشن کی تھی، پتہ چلا کہ کرائے پر دکان لی ہوئی تھی جو اب خالی ہو چکی ہے۔ نتھو اور پھتو نے سارا ناقص مال بھی دوگنے داموں سیل کے نام پر فروخت کر کے اندرون سندھ اور پنجاب کی راہ لی اور بہت سے دنبے اور بکرے خرید لیے کیونکہ اب بڑی عید آنے والی تھی اور اب تو ہر شخص نے قربانی کرنی تھی ، منافع ایک بار پھر پر کشش اور منہ مانگا ملنا تھا۔ اب آپ کہیں کہ جوتے کا کاروبار بحران کا شکار ہو گیا تھا تو واقعی میڈیا زبردست بحران کا شکار ہے اور بات بس اتنی سی ہے۔(خرم شہزاد)۔۔