تحریر: محمد نواز طاہر۔۔
پاکستان میں صحافی اور میڈیا کارکن بد ترین معاشی استحصال اور بحران کا شکار ہیں جسے کم کرنے کے لئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جارہا ، یہ صرف میڈیا انڈسٹری ہی نہیں باقی شعبوں میں بھی بے روزگاری ماضی کے برعکس تاریخ رقم کررہی ہے لیکن میڈیا انڈسٹری اس لئے قابلِ ذکر ہے کہ اس سے وابستہ کارکنان خود کو عقلِ کُل قراردیتے ہوئے دوسروں کو بحرانوں سے مشورہ تو دیتے ہیں مگر خود اپنے لئے کوئی راستہ تلا ش نہیں کرتے بلکہ اس خطِ مسقیم پربھی لکیریں پھیردیتے ہیں جو راستے کی سمت کا تعین کرتا ہے حالانکہ راستہ ، نشانِ منزل بہت پہلے سے واضح کیا جاچکا ہے اور پاکستا ن فیڈرل یونین آف جرنلسٹس( پی ایف یو جے)کی تحریک اورجدوجہد کی تاریخ شعور رکھنے والوں کے لئے مشعلِ راہ ہے اور وہ لوگ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں جنھوں نے منزل ، ر استے اور سمت کو خلط ملط کیا ، ایسا کیوں کیا گیا ؟ اگر کوئی کارکن یہی نہیں سمجھنا، جاننا چاہتا تو کسی دوسرے پر دوش کیسا ؟ المیہ تو یہ ہے کہ ایسے کردار نئے انداز سے ادا کیے جارہے ہیں، کچھ دنوں سے محسوس کیا جارہا ہے کہ جب سے پی ایف یو جے کی قیادت صوبہ بلوچستان کو ملی ہے ، ضیاءآمریت میں مارشل لاءکے کوڑے کھانے والے کو سیکرٹری جنرل بنایا گیا ہے ، اسی روز سے پی ایف یو جے کو غیر فعال رکھنے کی کوششیں بھی شروع کردی گئی ہیں جن کا مقصد مستقبل میںپی ایف یو جے کے انتخابی عمل میں بامقصد اور کریڈیبل لوگوں کی حوصلہ شکنی کرنا ہے جس کی ایک واضح مثال پی ایف یو جے کے الیکشن کے بعدسے لیکر اب تک یونٹوں کی ایگزیکیٹو اور جنرل کونسلز کے اجلاس ہیں جو شازو نادر ہی ہوئے ہیں ؟یہ اجلاس نہ ہونے سے پی ایف یو جے کی کسی بھی قسم کی کال کامیاب نہیں ہوسکتی بلکہ ایسی کال پر صرف فوٹو شوٹ کیلئے ’فرض ‘ ادا کیا جاتا ہے ، اس’مجبورانہ فرض‘ ک کی ادائیگی جیسے حالات دیکھ کر یونین کی ساکھ پر جہاں سوال اٹھتا ہے وہیں ایک نقصان یہ بھی ہورہا ہے کہ نئے لوگ ماضی کی جدوجہد اور تحریک کو محض دیو مائی اور الف لیلہ کی داستانیں سمجھ رہے ہیں اور یونین سے دور ہیں ، نئے لوگوں کا یونین سے دور رہنا یونین کی کتنی کامیابی ہے اس کا فیصلہ وہ لوگ بہتر کرسکتے ہیں جو پہلے دن سے یونین کے خاتمے اور غیر فعالیت کی خواہش رکھتے ہیں اور اس میں کامیابی کے سہرے اُلٹے تِرچھے کرکے سجا رہے ہیں ۔
اب جبکہ آٹھویں ویج ایوارڈ کے نفاذ کا معاملہ ہے تو کارکن ایک دوسرے سے دبے ، دبے ، سے الفاظ میں پوچھ رہے ہیں کہ کب نافذ ہوگا ، کب اضافی پیسے ملیں گے ؟ کن کن کو ملیں گے ؟ یہ الگ سوال ہے ۔ اس سے بڑا سوال تو اداروں میں تنخواہوں (جیتنی اور جیسی بھی ہیں ) کی عدم ادائیگی کا ہے ، دو ایک کے ماسوا شائد ہی کوئی ادارہ ہوگا جس کے کارکنان تنخواہوں کو ترس نہ رہے ہوں اور قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ جن اداروں میں کارکنوں کو بروقت تنخواہیں نہیں مل رہیں ، اگر غور کیا جائے تو انہی اداروں میں کارکنوں کا درد رکھنے والے لیڈروں کی تعداد بھی زیادہ ہے ؟ یہ تعداد اور لیڈر شپ خود ایک سوال ہے اور اس سے بڑا سوال کارکنان خود ہیں جو اپنا بھلا بُرا نہیں سوچتے ، صرف یہی خیال کرتے ہیں کہ دوسروں کی محنت سے انہیں خود بخود حق مل جائے گا ، یہ ایک خاص قسم کی منافقت اور کمزوری ہے اور ایک طرح کا کمزور لوگوں پر خوف بھی ہے لیکن کیا خوفزدہ رہ کر حق حاصل کیا جاسکتا ہے ؟ کیا کبوتر آنکھیں بند کرکے بلی کے شکار سے بچ سکتا ہے ؟ کیا کوئی میر جعفر ، صادق ، معاشرے میں اعلیٰ مقام حاصل کرسکا ہے ؟ تو اس کا جواب اثبات میں نہیں بلکہ تاریخ اور تاریخ پڑھنے والے لعنت ہی بھیجتے ہیں ، کیا ہمارا شعور اور ضمیر انغرائی نہیں لیتا ؟ ایک لمحے کےلئے بھی ہم یہ نہیں سوچتے کہ کل کو کوئی ہمیں کن الفاظ اور القابات سے پکارے گا ؟ کیا مورخ یہ نہیں لکھے گا کہ جو مورخین ( آج کے میڈیا کارکن خاص طور پر ) جو تاریخ چھوڑ کر گئے ہیں وہ کتنے بڑے مورکھ تھے ؟ بینائی اور بصیرت سے اس قدر محروم تھے کہ اپنی صفیں بھی نہیں دیکھ سکتے تھے؟
ایسے لوگ جو اپنے حق کی بات نہیں کرتے وہ استحصالی قوتوں( خواہ اندر سے ہوں یا باہر سے ) کے پیادوں اور آلہ کاروں کا کام کرتے ہیں ، منافقت کرتے ہیں اوران کے آنسو مگر مچھ کے آنسو کہلاتے ہیں ، یہ جھوٹے لوگ ہوتے ہیں اور جھوٹوں کے بارے میں آفاقی کتاب میں بڑے سخت الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ، ساتھیوں کے استحصال میں حصہ دار بننے والوں کے لئے بھی اس آفاقی کتاب میں کم سخت الفاظ استعمال نہیں کئے گئے ، وہی الفاظ ہیں منکر ، مشرک اور منافق۔۔۔۔
ابھی وقت اتنا بھی ہاتھ سے نہیں گیا کہ ہم کارکنان اپنی صفیں درست نہ کرسکیں ؟ منافقت ترک نہ کرسکیں ؟ جس روز صفیں درست ہوگئیں ، منافقت کم ہوگئی وہ دن میڈیا انڈسٹری میں معاشی بحران کے خاتمے کی ابتدا ہوگا ، پھر ویج ایوارڈ بھی ملے گا اور محنتانہ بھی پورا ملے گا ۔(محمد نوازطاہر)۔۔