sahafio ka parliament house ke samne ahtejaaj

میڈیا بحران ختم کرنے کیلئے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی سفارش۔۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کی ذیلی کمیٹی نے تنخواہوں عدم ادائیگی، میڈیا کو بحران سے نکالنے اور قانون سازی اور مسائل کے حل کے لئے سینٹ اور قومی اسمبلی کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی بنانے کی سفارش کردی۔ کمیٹی نے ہدایت کی کہ اشتہارات و بقایاجات کو تنخواہوں کی ادائیگی سے مشروط کیا جائے، جرنلسٹس پروٹیکشن بل جلد لایا جائے،کنوینر کمیٹی سید امین الحق نے ہدایت کی کہ وزارت قانون سے مشاورت کرکے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کا طریقہ کار طے کیا جائے،صحافیوں کی لائف اینڈ ہیلتھ انشورنس کی جائے۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی اطلاعات کی ذیلی کمیٹی کا کنوینئر سید امین الحق کی صدارت میں اجلاس ہوا،اجلاس کے آغاز پر کیپٹل ٹی وی کے کیمرہ مین فیاض علی مرحوم کے لئے دعائے مغفرت کی گئی،اجلاس میں کارکنان کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی کا معاملہ زیر غور آیا، اجلاس میں پی آر اے صدر بہزاد سلیمی کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور قانون سازی پر کمیٹی کو بریفنگ دی اور سات نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کردیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت اشتہارات و بقایاجات کو کارکنوں کی تنخواہوں کی ادائیگی سے مشروط کرے ۔ پرنٹ کی طرح الیکٹرانک میڈیا کے لئے بھی سروس سٹرکچر بنایا جائے،تمام کارکنان کو بینک کے ذریعے تنخواہوں کی ادائیگی دا تاریخ تک کی جائے ہر تین ماہ بعد ہر میڈیا ادارہ تنخواہوں کی بیلنس شیٹ وزارت اطلاعات کو پیش کی جائے جو تفصیلات فراہم نہ کرے اسے مزید اشتہارات اور بقایا جات نہ دیئے جائیں۔ جن اخبارات نے جن شہروں سے سٹیشنز بند کردیئے ہیں کارکنان کو نکال دیا ان سٹیشن پر انہی اخبارات کو کمبائنڈ اشتہارات نہ دیئے جائیں۔میڈیا اداروں میں تنخواہوں میں لگایا گیا کٹ ختم کیا جائے،اداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ کارکنان کو ہیلتھ اور گروپ انشورنس دیں اور ای او بی آئی میں رجسٹرڈ کرائیں تاکہ وہ ای او بی آئی کے فوائد سے محروم نہ رہیں،پیمرا سمیت تمام قوانین میں کارکن صحافیوں کے لئے ترامیم کی جائیں، سینٹ اور قومی اسمبلی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے جو نگران کا کردارادا کرے۔کنوینئر کمیٹی نے کہاکہ آج کے اجلاس کا مقصد صحافیوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے پالیسی کی تشکیل دینا ہے، عثمان تراکئی نے کہاکہ میڈیا جمہوریت کا لازمی جزو ہے، اس کا تحفظ ضروری ہے، نیشنل پریس کلب کے صدر شکیل قرار نے کہا کہ جب سے موجودہ حکومت آئی ہے،ایسا بحران پیدا ہوا ہے، جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی، ہزاروں صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو اداروں سے نکالا جا رہا ہے، تنخواہیں نہیں مل رہی، اور تنخواہوں میں کٹوتیاں کی جا رہی ہیں، پی ایف یو جے کے جنرل سیکرٹری ناصر زیدی نے کہا کہ آج آذادی اظہار رائے صلب کر لیا گیا ہے، حقیقت بیان کرنے پر پابندی ہے، اخبارات گزٹ بنتے جارہے ہیں، میڈیا میں مواد کو کنٹرول کیا جارہا ہے، کہا جاتاہے کہ حکومت کے حق میں آرٹیکلز شائع کریں،اشتہارات ملیں گے، پی ایف یو جے سویلین بالادستی کی حامی ہے، جب تک میڈیا آزاد نہیں ہوگا، بحران حل نہیں ہوگا، حکومت نے سٹیک ہولڈرز کو نظر انداز کرکے میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی بنانے کا فیصلہ کیا، میڈیا بحران ایک سازش کی وجہ سے پیدا ہوا، حکومت اور میڈیا مالکان کا گٹھ جوڑ بھی ایک وجہ ہے،پی ایف یو جے کے راہنما افضل بٹ نے کہاکہ موجودہ میڈیا بحران غیر اعلانیہ سنسرشپ کا تسلسل ہے، یہ منصوبہ بندی کے ساتھ ہو رہاہے، یہ پلان راولپنڈی میں تیار ہوا اور سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار کے ذریعے عملدرآمد کیا گیا،جس کے نتائج آج میڈیا بھگت رہا ہے، ٹیکنالوجی کے انقلاب بھی میڈیا بحران کی ایک وجہ ہے، بحران کی وجہ سازش بھی ہے، جب ریاست میڈیا کو برائی کی جڑ ثابت کرنے کی کوشش کرے گی تو دوستانہ ماحول نہیں پیدا ہوسکتا، پارلیمنٹ میڈیا کے دکھوں کا مداوا کرے، آٹھویں ویج بورڈ کا ایک ماہ ہوگیا ہے نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا، میڈیا کو بحران سے نکالنے اور مسائل کے حل کے لئے پارلیمانی کمیشن بنایا جائے۔سی پی این ای کے جنرل سیکرٹری جبار خٹک نے کہا کہ میڈیا کے اشتہارات، ملازمین کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور بیروزگار ملازمین کے لئے مستند ڈیٹابیس ہونا چاہیے، میڈیا کی مائیکرو مینیجمینٹ آئین کی خلاف ورزی ہے،عوام کے مینڈیٹ کا احترام کیا جانا چاہیے، سی پی این ای صحافیوں کے ساتھ ہے، نادہندگان کی حمایت نہیں کریں گے، حکومتوں نے صرف چند میڈیا کے اداروں کی ہمیشہ سرپرستی کی اور 80 فیصد سے زائد اشتہارات چند اداروں کو جاری کئے جاتے ہیں، حکومت سپر یم کورٹ کے فیصلے کی دھجیاں اڑا رہی ہے اور فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کر رہی، ریگولیشن کے نام پر میڈیا کی کنٹرولنگ ختم کی جائے، حکومت میڈیا کے 5 سے 6 ارب کے بقایا جات جاری کرے، پاکستان ٹوڈے کے ایک اداریہ سے ناراض ہو کر اشتہارات بند کردئیے ہیں، اس کا نو ٹس کیاجائے۔۔جیونیوز کے نمائندے  رانا جواد نے کہاکہ جنگ، دی نیوز اور ڈان کے اشتہارات بھی حکومت نے بند کردئیے ہیں۔ کمیٹی نے تنخواہوں اور قانون سازی کے لئے پی آر اے کی تجویز پر سینٹ اور قومی اسمبلی کی نگران مشترکہ پارلیمانی کمیٹی بنانے کی ہدائت کردی۔ اشتہارات و بقایاجات کو تنخواہوں کی ادائیگی سے مشروط کیا جائے قائمہ کمیٹی کی ہدائت جرنلسٹس پروٹیکشن بل جلد لایا جائے۔۔

How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں