تحریر: علی کاظم۔۔
یوں تو پاکستان میں نیوز و انٹرٹینمنٹ چینلز میں صحافیوں و دیگر ملازمین کو رکھنے اور نکالنے کا عمل سارا سال ہی جاری رہتا ہے لیکن اگست 2018 کے بعد میڈیا ہاؤسز سے ملازمین کو نکالے جانے کا عمل اس شدت سے بڑھا ہے کہ متعدد چینلز سے درجنوں ملازمین یک قلم جنبش سے نکال دیئے گئے، بلکہ کچھ چینلز تو بند بھی کردیئے گئے، اس کی کچھ بے معنی وجوہات مالکان کی جانب سے دی گئیں تو کچھ مالکان مجرمانہ خاموشی اختیار کیئے ہوئے ہیں، لیکن کہا یہی جاتا رہا ہے کہ اشتہارات میں کمی اور حکومت کی جانب سے سرکاری واجبات کی عدم ادائیگی نے مالی بحران پیدا کیا جس کی وجہ سے مالکان ملازمین کی تعداد کم کرنے پر مجبور ہیں.۔۔چلیں اگر صرف اسی وجہ سے سینکڑوں ملازمین کو بے روزگار کیا گیا ہے تو 12 نومبر 2018 کو وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوھدری نے تمام واجبات کی ادائیگی اور سرکاری اشتہارات پر سے حکومتی حدود کے خاتمے کا اعلان کیا ہے. اب ہونا تو یہ چاھیئے تھا کہ اس اعلان کے ساتھ ہی میڈیا مالکان کی جانب سے نکالے گئے ملازمین کی واپسی اور چھانٹی کیلئے بنائی گئی فہرستوں کے خاتمے کا اعلان بھی کردیا جاتا لیکن اب تک ایسا نہیں ہوا ہے اور لگتا یہ ہے کہ ایسا ہوگا بھی نہیں.۔۔
حقیقت یہ ہے کہ وزیر اطلاعات نے اپنے اعلان سے میڈیا مالکان کو بند گلی میں پہنچا دیا ہے، جو پہلے تو اشتہارات کی بندش اور عدم ادائیگی کو جواز بنا کر ملازمین کی چھانٹی میں مصروف تھے، اب ان کے پاس بظاہر کوئی جواز نہیں رہ گیا ہے.۔۔لیکن دوستو! صورتحال اتنی سادہ نہیں، بلکہ حقائق ایسے کڑوے ہیں جن سے پردہ اٹھانے کی ابھی تک کسی نے ہمت نہیں کی ، ہمارا کیا ہے،شعبہ صحافت میں اپنا کاروبار داؤ پر لگا کر قلم کی زبان کو نقارہ خدا بنانے کیلئے آئے تھے تو اس تحریر کے بعد راندہ درگاہ رہے تو کیا غم…:
سچ کیا ہے..؟؟ سچ یہ ہے کہ میڈیا ہاؤسز سے ملازمین کو نکالے جانے میں مالکان کے ساتھ پورا پورا ہاتھ اکثر چینلز پر قابض نیوز ، کرنٹ افیئرز اور پروگرامنگ سربراہان کا بھی ہے جن کی اکثریت اپنے تجربے اور قابلیت کی بنا پر نہیں بلکہ چاپلوسی، خوشامد اور پرچی کی بنیاد پر ان اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئی اور بھاری تنخواہوں اور مراعات کے مزے مسلسل لُوٹ رہی ہے.۔ یہ لوگ جب اپنے غیر صحافتی افعال سے عہدے حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تو مالکان کی تمام جائز و ناجائز خواھشات کی تکمیل کیلئے ان سے ہائرنگ فائرنگ کے مکمل اختیارات بھی حاصل کیئے،،، اب شروع ہوتی ہے ان کی اصل کہانی،،،متعدد چینلز کے ان شعبہ جاتی سربراہان نے سب سے پہلے مارکیٹ میں ایسے لوگوں کو داخل کیا جن کا دُور دُور تک صحافت و پروگرامنگ سے تعلق نہیں تھا، اپنے بھائی، بھانجے بھتیجے، سالے،عزیز و اقارب دوست، جاننے والوں کے جاننے والے اور پسند ناپسند پر بھرتیاں کی گئیں، اور اس دوران میرٹ، سینئرز، تجربہ اور قابلیت کا آزادانہ و بے رحمانہ استحصال کیا گیا،،اس طرح کی بھرتیوں کی وجہ کیا تھی…؟؟وجہ نہایت سادہ کہ ایک تو یہ خود نااہل اور ناتجربہ کار تھے تو کسی تجربہ کار اور اہل کو اگر رکھتے تو ان کی قابلیت کا پول کُھلتا،، اس لیئے اس شعبے سے انجانے اور ہاں میں ہاں ملانے والوں کو بھرتی کرکے نہ صرف جگہیں پُر کردیں بلکہ جن کے کہنے پر بھرتیاں کی گئی تھیں اس سے مفادات کا حصول بھی آسان بنالیا،، پھر کسی شعبے میں بادل نخواستہ کسی تجربہ کار کو بھرتی کرنا بھی پڑا تو جونئیرز سے اُس کی وہ دُرگت بنوائی گئی کہ معاشی بدحالی کا شکار بے چارہ وہ سینئر بھی اس چکّی میں پسنے پر مجبور ہوا اور جس نے پیشہ ورانہ احتجاج کرنا چاھا اُسے نہ صرف گھر بھیج دیا گیا بلکہ اپنے دیگر چینلز کے نااہل سربراہان کے گینگ کے ذریعے اس کا روزگار بالکل ہی بند کروادیا گیا..
اب جب یہ عمل بھی اپنے وقت میں پورا ہوا تو کام، اور ریٹنگ بڑھانے کی دوڑ شروع کی گئی نتیجے میں اس گینگ نے جس طرح نیوز، کرنٹ افیئرز اور پروگرامنگ کا حشر کیا وہ سب کے سامنے ہے، اب بھلا بتائیں ایسے معیار سے کب تک ریٹنگ مل سکتی تھی۔۔نتیجے میں اشتہارات اور عوام کی دلچسپی کم ہوتی گئی اور آخر وہ وقت آگیا جب مالکان نے تنخواہوں کی ادائیگی روک دی،، رونا دھونا چلتا رہا لیکن کام کا معیار بہتر بنایا گیا نہ ماضی کی غلطیوں کو سدھار کر حقدار کو اس کی صحیح جگہ پر مقرر کیا گیا جس کا نتیجہ آخر میں سینکڑوں ملازمتوں کے خاتمے کی صورت میں نکلا اور اپنے پرائے، اچھے بُرے ، سینئر جونئیر سب اس کا نشانہ بنے.۔۔مزے کی بات یہ ہے کہ یہ ڈائریکٹرز حضرات آج بھی اپنی کرسیوں پر براجمان ہیں بلکہ ایک آدھے کی نوکری اگر ختم بھی ہوئی تو شام ہونے سے پہلے دوسری نوکری اس کے گھر چل کر آچکی تھی۔۔اس ظلم و ستم پر کوئی آواز نہیں اٹھاتا، کوئی ان ڈائریکٹرز کو موردِ الزام نہیں ٹہراتا، اور پھر اس گینگ میں اضافہ ہوتا گیا اور ایک دو سے بڑھ کر ان کی تعداد کئی چینلز تک پھیل چکی اور ان کے خلاف کہنے کی اول تو کوئی جرأت نہیں کرتا یا کسی کسی مصلحت کا شکار ہوجاتا ہے۔۔میری خواھش اور اپیل ہے کہ اب بھی وقت ہے حکومتی اداروں، متعلقہ صحافتی تنظیموں اور خاموش بیٹھے سینئرز کو اس معاملے کا نوٹس لینا ہوگا.۔۔انھیں ان تمام چینلز کے ڈائریکٹرز کو بتانا ہوگا کہ نیوز ،کرنٹ افیئرز و پروگرامنگ کیسے چلائی جاتی ہے اس کیلئے سینیارٹی، تجربے اور سوجھ بوجھ کی کتنی ضرورت ہوتی ہے، نئے ٹیلنٹ کو کس طرح استعمال کیا جاتا ہے، یہی بات چینلز مالکان کو بھی سمجھنی ہوگی کہ فقط کسی کے کہنے پر اگر آپ کسی نااہل کو نیوز یا پروگرامنگ ھیڈ بنانے پر مجبور ہیں تو کم از کم ٹیم کے دیگر ارکان کے تعین پر سمجھوتا نہ کریں.کہ یہ بات ثابت ہے اقرباء پروری سے کسی کو میڈیا میں رکھوایا تو جاسکتا ہے چلایا نہیں جاسکتا..۔۔میرے بہت سے سینئرز آج بھی بے توقیری کا شکار ہیں، میں ان کے نام ان کی عزت کی خاطر نہیں لکھ رہا لیکن مجھے پتہ ہے وہ وہ شکوہ کریں تو کس سے کریں..میرے دوست گواہ ہیں مجھے جب جب اور جس چینلز میں بھی اختیار ملا کوشش یہی کی کہ اپنے سینئرز کو ان کے تجربے کی مناسبت سے جگہ ضرور دوں، میں نے نئے لوگوں کو بھی مناسب جگہ دی، انھیں سکھایا اور اس قابل بنایا کہ وہ صحافت کی الف بے سمجھ کر اس شعبے میں مقام حاصل کرسکیں، لیکن میں سمجھتا ہوں سینئرز اور اہل افراد کا حق ادا نہیں ہوسکا ہے.۔۔لیکن میں علی الاعلان کہتا ہوں کہ کچھ چینلز کے یہ ڈائریکٹرز صحافت اور میڈیا ہاؤسز کے اصل دشمن ہیں جو اپنی نااہلی چھپانے کیلئے لوگوں کو بھرتی کرتے رہے اور انھیں کیا سکھاتے جب خود کچھ نہیں آتا تھا ،، نتیجہ میں اسی طرح کے میڈیا بحران نے جنم لینا تھا.،جس کا خمیازہ نئے و پرانے، سینئر جونیئرز سب بے روزگاری کی صورت بُھگت رہے ہیں.۔۔اور اس کے اصل ذمہ دار میڈیا مالکان کے ساتھ یہ نیوز و پروگرامنگ ڈائیرکٹرز بھی ہیں۔۔آخر میں میرا سلام ان سینئرز کو جن کو جب اور جہاں اختیار ملا انھوں نے ہمیشہ اپنے جونیئرز کو سکھایا اور آگے بڑھایا اور کچھ چینلز کے نیوز سربراہان تو یقیناً دیگر کیلئے مثال ہیں. جن کی اہلیت اور پیشہ ورانہ انداز پر کبھی کوئی سوال نہیں اٹھا سکا.(علی کاظم)۔۔