تحریر: سید عارف مصطفی۔۔
لگتا ہے بھنور کی گرہیں کھلنے کو ہیں اور بالآخرعقلیت نے ہی راہ دکھائی ہے ۔۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ سب بھی پہلے سے طے شدہ ہو اور تھکا مارنے سے میڈیا کو اپنی راہ پہ لانے کی یہ کوشش بس اسی قدر ‘ایکٹیویٹی’ تک ہی محدود رکھی گئی ہو ، یا پھر تبدیلی بریگیڈ کو معاملے کی سنگینی کا واقعی ادراک ہوچلا ہو ۔ خیر جو بھی ہو ۔ بہت انتظار کے بعد جاں بہ لب میڈیا کے لیئے مارگلہ کے دامن سے ایک اچھی خبر آئی ہے اور وہ یہ کہ وزیراعظم عمران خان نے وزارتِ اطلاعات کو میڈیا ہاؤسز کے خطیر بقایا جات ادا کرنے کا حکم جاری کردیا ہے۔ یہ خوشخبری وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت میڈیا کے معاملات سے متعلق اہم اجلاس میں دی گئی جس میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے علاوہ بیوروکریسی کے متعلقہ اعلیٰ حکام نے بھی شرکت کی۔اس اجلاس میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے روایتی الزام تراشی کا سہارا لیتے ہوئے یہ کہا کہ میڈیا انڈسٹری پہ پڑنے والے یہ برے اثرات پچھلی حکومت کے فیصلوں کا نتیجہ ہیں کیونک انکے مطابق گزشتہ حکومت نے اشتہارات کو سیاسی آلہ کار کے طور پر استعمال کیا، انکا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم اشتہارات کے سیاسی فوائد کے حق میں نہیں، لہٰذا ہم اشتہارات پر حکومتی کنٹرول ختم کر رہے ہیں اور اشتہارات کے اجراء کے لیے میرٹ پر مبنی پالیسی بنا رہے ہیں۔
اس موقع پہ فواد چوہدری نے یہ تو کہا کہ گزشتہ چند ماہ سے میڈیا ہاؤسز کے مالی بحران کے شکار ہونے اور میڈیا سے درجنوں افراد کو برطرف کرنے کی خبریں پھیل رہی ہیں لیکن اس بحران کی وجوہ اور اسباب بیان کرنا وہ شاید بھول گئے، کیونکہ ایسی صورت میں صاف آشکار ہوجانا تھا کہ کون معشوق چھپا ہے اس پردہء زنگاری میں ۔۔ آپکی تو ادا ٹہری اور کوئی جان سے گیا والی بات ہے کیونکہ یہ سب حکومتی سیاسی عشوہ طرازی کے زیراثرہے ۔ اور لاریب حکومت کی ‘روک تھام پالیسی ‘ کے نام پہ جاری یہ قطعی آمرانہ و جانبدارانہ بندوبست ، میڈیا کے کڑاکے نکالنے کی انصافی امنگوں سے لبریز ہے اور اسی وجہ سے تمام نمایاں میڈیا گروپس میں کہرام مچا ہوا ہے اور عملی کیفیت یہ ہے کہ چند راج دلاروں کے سوا بیروزگاری کی بلا ہر میڈیائی دیوار پہ بال کھولے سو رہی ہے کیونکہ حکومتی اشتہارات کی مد میں واجب الادا خطیر رقوم کو روک لینے سے اب زیادہ تر میڈیا ھاؤسز میں اتنی سکت باقی نہیں رہی کہ وہ اپنے ملازمین کو بروقت تنخواہ جاری کرسکیں اور انکا یہ مالی بحران اس قدر شدید ہوچلا ہے کہ اب تو آئے روز عملے میں کئیوں کی برطرفیاں معمول بن چکی ہیں ۔ اس منظرنامے کو دیکھیئے اور سوچیئے کہ یہ کتنی ستم ظریفی کی بات ہے کہ کسی جمہوری کینوس پہ آمریت کے رنگ بکھرے نظر آئیں اور اہل صحافت تحریک انصاف کے دور میں بھی انصاف کے لیئے دہائیاں دیتے نظر آئیں۔۔
گو اب بھی یہ یقین نہیں آتا کہ میڈیا سے یہ سب آمرانہ داؤ پیچ جمہوریت کے نام لیواؤں اور انصاف کے علمبرداروں نے کھیلے ہیں لیکن خیر اب جبکہ حکومتی ایوانوں یہ نوید سنا ہی دی گئی ہے تو عین مناسب ہے کہ آئندہ ایسا ناگوار عمل پھر نہ ہونے دینے کو بھی یقینی بنادیا جائے اور اسکے لیئے پریس اینڈ پاور کے درمیان ایک مشترکہ کونسل تشکیل دیدی جائے جو ایک طرف تو محض سنسنی خٰیزی کو بطور صحافت پروان چڑھنے سے روکے اور اسے ذمہ دار بنانے پہ غور کرے تو دوسری طرف ایسے تادیبی اقدام کے لیئے حکومت کے بجائے نمائندہ صحافتی تنظیمیں آگے آکے یہ ذمہ داری قبول کریں اور اپنے یہ کام احسن طریق پہ ادا کرسکنے کے لیئے یہ ناگزیر ہے کہ وہ اب اپنی صفوں سے ایسی کالی بھیڑوں کو نکال باہر کریں جو کہ ڈبل ایجنٹ کا کردار ادا کرتی ہیں ۔۔ آزادی صحافت کو یقینی بنانے کے لیئے یہ بیحد لازم ہے کہ تمام اہل صحافت اور صاحبان فکر و نظر ، جملہ پارلیمانی سیاسی جماعتوں سے مل کر حکومت سے یہ مطالبہ دوٹوک انداز میں تسلیم کرائیں کہ وہ آئندہ میڈیا کا بازو مروڑنے سے باز رہے اوراشتہارات پہ بندش ، اخباری ترسیل میں رکاٹوں اور کیبل آپریٹرز پہ دباؤ کے ہتھکنڈوں سے قطعی اجتناب برتے اور اس مد میں ٹھوس یقین دہانی کرائے –
چلتے چلتے ایک آخری بات یہ کہ اسی مذکورہ خوشخبری والے اجلاس میں مبینہ طور پہ وزیراعظم نے یہ بھی کہا ہےکہ ہم نے عوام سے روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن ہماری حکومت میں عوام بے روزگار ہورہے ہیں اور اس کے بعد انہوں نے میڈیا ہاؤسز کے بقایا جات فوری طور پر ادا کرنے کی ہدایت بھی کی ۔ اگر تو وزیراعظم کا یہ بیان انکی جانب سے میڈیا کے لیئے اپنے حکومتی اقدامات پہ پشیمانی کا اظہار ہے تو یہ بہت ہی اچھی بات ہے اور نہایت احسن طرز فکر ہے لیکن اسکا عملی ثبوت اسکی تلافی کے اقدامات سے ہی ہوسکے گا ۔ اسی لیئے اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم کتنی جلد اپنا یہ وعدہ پورا کرتے ہیں کیونکہ محض خوشنماء الفاظ سے نہ تو بجھے چولہے جل سکتے ہیں اور نہ اور سنہرے وعدوں سے کسی کا پیٹ بھرسکتا ہے اور یہاں میڈیا کی کمر اس بری طرح سے توڑ کے رکھ دی گئی ہے کہ اب فوری طور پہ بحالی و تلافی کے اقدامات ناگزیرہیں۔۔(سید عارف مصطفی)۔۔