تحریر: رؤف کلاسرا۔۔
جب عمران خان صاحب جہانگیر ترین سے مل کر پیپلز پارٹی‘ ق لیگ اور نواز لیگ کا چھوڑا ہوا سیاسی کچرا اکٹھا کر رہے تھے تو اس پر میرے اور عامر متین جیسے اعتراضات کرتے تھے کہ آپ سیاسی اخلاقیات کا جنازہ نکال رہے ہیں‘ آگے سے مذاق اڑایا جاتا تھا۔ جن خان صاحب نے نوجوان نسل کو کرپٹ ایلیٹ کے خلاف جگایا تھا‘ اس کے خلاف شعور پیدا کیا تھا‘ انہی خان صاحب نے اس نوجوان نسل کو چور لٹیروں کے دفاع پر لگا دیا کیونکہ وہ سب عمران خان کی قیادت میں اکٹھے ہوگئے تھے۔ یوں اس سیاسی اخلاقیات کا بیڑا غرق ہونا شروع ہوا جس کا رونا اب پی ٹی آئی رو رہی ہے۔ نوجوان نسل نے بھی عمران خان کو مایوس نہیں کیا اور سوشل میڈیا پر مخالفیں کو وہ گالی گلوچ کی اور ان کی وہ دھول اڑائی کہ الامان۔
چلیں مان لیا کہ عمران خان وزیر اعظم بن گئے‘ تو اس سے کیا ملا؟ آج ان کی ساکھ کہاں جا گری ہے؟ کرسی کسی نہ کسی دن چھن جاتی ہے لیکن آپ کی اخلاقیات زندہ رہتی ہے۔عمران خان ملتان سے آئے یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں تین مارچ ہی کو نہیں ہارے وہ اُس دن ہار گئے تھے جب انہیں لگا تھاکہ عمربھر کی جدوجہد اور آئیڈیل ازم کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اہمیت ہے تو ”چوروں‘‘ کو اکٹھا کرکے ان کی کابینہ بناکر کچھ عرصہ وزیراعظم بننے کی۔ وہ کہتے تھے کہ اگر لیڈر ٹاپ پر اچھا ہوتو پھر وہ سب کو ٹھیک رکھتا ہے۔ اوپر بندہ ایماندار ہوتو کس کی مجال کہ نیچے کرپشن کر سکے۔ اور پھر ہم سب نے دیکھاکہ اس ”ایماندار‘‘ حکومت کی ناک کے نیچے لوگوں کے اربوں لوٹے گئے اور آج بھی لوٹے جارہے ہیں۔ جوبھی انکوائری رپورٹ آئی اس میں خان صاحب کے اپنے وزیر ملوث نکلے۔ دو تین دن بڑھکیں مارکر خاموشی تان لی گئی۔خان صاحب نے الیکشن جیتنے کے بعد جو تقریر بنی گالہ سے کی‘ اس نے سب کے دل موہ لیے تھے۔ یوں لگ رہا تھا ایک نئے عمران خان نے جنم لیا ہے‘ لیکن اگلے دن وہ ایسے ہینگ اوور کا شکار ہوئے کہ آج ڈھائی سال بعد بھی وہیں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایک بات جو خان صاحب سے مس ہوئی کہ وہ سب کچھ مقتدرہ پر ڈال کر بیٹھ گئے کہ وہی ہینڈل کریں۔ یوں مقتدرہ کو بہت سے سیاسی مسائل حل کرنے کے لیے آگے آنا پڑا جو وزیراعظم کو خود حل کرنے چاہئیں تھے۔ وزیراعظم کا ایک ہی نعرہ تھا کہ وہ اس کرپٹ اپوزیشن سے بات نہیں کریں گے چاہے کچھ ہو جائے کیونکہ اپوزیشن این ار آو مانگتی ہے۔ یوں پارلیمنٹ بیکار ہوکر رہ گئی۔ کمزور ہوئی۔ اب اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مقتدرہ پر نواز شریف‘ مریم نواز‘ مولانا فضل الرحمن نے تنقید شروع کی کہ وہ سیاست میں مداخلت کررہے ہیں۔ اس دبائو کا نتیجہ اب یہ نکلا کہ مقتدرہ نے معاملات کو نیوٹرلائز کیا۔ وزیراعظم کو ایک طرح سے میسج ملاکہ وہ اپنے سیاسی ایشوز خود دیکھیں اور یوں سب لوگ حیران ہوئے کہ جو عمران خان کسی سے نہیں ملتے تھے انہیں ایک ایم پی اے خرم لغاری کو وزیراعظم ہاؤس بلاکر اکیلے ملاقات کرنا پڑی‘ ورنہ ایسا کام ایک محرر کے ذریعے بھی ہو سکتا ہے۔ اب سب کو لگ رہا ہے کہ وزیراعظم کے سر سے ہاتھ اُٹھا لیا گیا ہے۔ ڈسکہ میں جو ہوا‘ الیکشن کمیشن میں جو ہوا‘ صدارتی ریفرنس پر مرضی کا فیصلہ نہ آیا اور اب رہی سہی کسر سینیٹ کے الیکشن میں پوری ہوگئی۔
ان سب باتوں سے لگتا ہے کہ ان کے ہاتھ سے گیم نکل رہی ہے۔ جہاں مہنگائی نے لوگوں کی چیخیں نکلوا دیں وہیں ان کے اردگرد بیٹھی پارٹیوں اور وزیروں نے جس طرح مال بنایا اس پر سب انکوائریاں دبا دی گئیں اور کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی اس نے بھی عوام میں ان کی مقبولیت کوکم کیا۔ میڈیا ان کا ہمدرد تھا لیکن پہلے دن سے سب کو سینگوں پر اُٹھا لیا گیا۔ جان بوجھ کر بحران پیدا کیا گیا اور ہزاروں ورکرز بے روزگار ہوئے۔ اب خان صاحب کو احساس ہوا ہے کہ ان کی میڈیا ہینڈلنگ ٹھیک نہ تھی۔ وہ اب ہر کابینہ اجلاس میں کھل کر اشتہار دینے کی ہدایات دیتے ہیں۔ شبلی فراز ہر دفعہ نیا بجٹ منظور کرا رہے ہیں تاکہ میڈیا کو اپنی سائیڈ پر رکھا جائے لیکن ظاہر ہے نقصان ہوچکا۔ پھر انہوں نے اپنی سوشل میڈیا ٹیموں کے ذریعے گالی گلوچ کا نیا کلچر متعارف کرایا‘ اس نے بھی ان کے کئی ہمدردوں کو ان سے دور کردیا۔ جو گول خان صاحب نے بنی گالہ سے کی گئی تقریر میں سیٹ کیے تھے‘ وہ ان کی ان ڈھائی برسوں کے غصے‘ ناراضی‘ جارحانہ پن اور کسی حد تک تکبر میں کہیں کھو گئے۔ یہی اپوزیشن کا مقصد تھاکہ ایک فاسٹ باؤلر کو غصہ دلائے رکھو۔ وہ شارٹ پچ یا باؤنسر مارتا رہے گا اور وہ باؤنڈری سے باہر گیندیں پھینکتے رہیں گے۔ وہ اپوزیشن جس کی کرپشن اور بیڈ گورننس اتنی زیادہ تھی کہ وہ بیس برس دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہوسکتی تھی اسے خان صاحب نے صرف بیس ماہ میں نہ صرف دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا کر دیا ہے بلکہ وہ اب ان کے امیدوار کو ہرا کر ان کے اپنے اقتدار کیلئے خطرہ بن چکی ہے۔
یقینا خان صاحب کے پاس اس کے ہزاروں جواز ہوں گے لیکن سیاست بہت ظالم چیز ہے۔ جب بوری میں سوراخ ہو جائے تو لاکھ رفو کرتے رہیں کچھ نہ کچھ روزانہ اس سوراخ میں سے گرتا رہتا ہے‘ جب تک بوری خالی نہ ہو جائے۔ یہاں کوئی کسی کا سگا نہیں ہوتا۔ یہی وجہ تھی کہ جب ظفراللہ جمالی کو ہٹایا گیا اور وہ بلوچستان‘ اپنے گائوں جانے کیلئے پنڈی ریلوے سٹیشن سے ٹرین پکڑ رہے تھے تو ان کی بڑی کابینہ میں سے صرف ایک وزیر رضا ہراج انہیں رخصت کرنے آئے تھے۔ باقی سب وزیر نئے وزیراعظم شوکت عزیز کے گھر قلفیاں کھا رہے تھے۔(بشکریہ دنیا)