تحریر: ریحان سید۔۔
فصیح الرحمن کے والد اور والدہ کے انتقال کے باعث ان کا جنازہ ان کے سسرال حیدر روڈ کرشن نگر لاہور سے اٹھایا گیا،ان کا سسرال ہمارے واقف کاروں پر مشتمل ہے ، فصیح الرحمن کی شادی کی بڑی دھوم تھی ،شاید وہ اس وقت جیو میں تھے اور اتنے زیادہ چینلز بھی نہیں تھے، سسر کہتے تھے میرا داماد سینیئر صحافی ہے بڑے بڑے وزیروں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے ، میری فصیح الرحمن سے ملاقات اسلام آباد میں ہوئی، ان کو ایک شو کے لیے مدعو کیا،وہ بہت سلجھے ہوئے اور پڑھے لکھے صحافی تھے ،جب جب ان سے ملاقات ہوئی ،ان کو علم اور معلومات سے بھرپور پایا،حالات اور واقعات یے ہی بتاتے ہیں کے وہ بیروزگاری کے باعث کافی عرصے سے ذہنی کرب میں مبتلا تھے، جس کے باعث دل کا دورہ پڑا ، 2 ماہ میں شاید یہ چوتھےصحافی ہیں جن کا انتقال جوانی میں دل کا دورہ پڑنے کے باعث ہوا،،،
صحافیوں کی فلاح و بہبود ،تنخواہوں کی وقت پر ادائیگی کے لیے حکومت سے اب کوئی توقع نہیں رکھنی چاہیے ، شاید صحافیوں کا معاملہ حکومت کے ہاتھ میں ہی نہیں ،فواد چوہدری تو بات صاف کر جاتے تھے لیکن فردوس صاحبہ صحافیوں کے حق میں کم سے کم بیان ضرور دیتی ہیں۔میری ذاتی رائے ہے کہ وہ بھی اس صورتحال سے پریشان ہیں لیکن معاملہ ان کے ہاتھ میں لگتا نہیں ۔
میں معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان کی صلاحیتوں کا معترف ہوں،ان کو دوبار ترجمان وزیراعظم بنانے کی پیشکش کہ گئی لیکن انہوں نے یہ کہہ کر ٹھکرا دی کے ان کو ایسی وزارت چاہیے ہے جس میں وہ کام کرسکیں۔ کچھ عرصے کے بعد وہ معاون خصوصی برائے اطلاعات بن گئیں اور 12 گھنٹے سے زائد کام بھی کرتی ہیں لیکن صحافیوں کے معاملات کو حل کرانے میں وہ مکمل طورپر بے بس نظر آتی ہیں۔۔حکومت ٹی وی چینلز سے کم سے کم یہ تو پوچھ سکتی ہے کے ایک بیورو میں کام کرنے والوں کی مجموعی تنخواہ تو 10 لاکھ بھئ نہیں جبکہ اینکر کی تنخواہ 15 لاکھ ہے یہ کیا کیا جارہا ہے ٹی وی چینلوں میں۔ ایک طرف مہنگائی عروج پر ہے تو دوسری طرف صحافیوں کی بیروزگاری جن کی ملازمت لگی بھی ہے تو تنخواہ اتنی کم ہوگئی ہے کے گزارا مشکل ایسے میں صحافی کرے تو کیا کرے۔۔جن صحافیوں کو اداروں سے نکال دیا گیا ہے وہ اس بات کی امید نہ رکھیں کے ان لو فلحال کہیں نوکری ملے گی ۔ وہ کسی اور شعبے میں نوکری کی کوشش کریں،این جی او سے منسلک ہوجائیں اپنی نوکری کے حصول کی کوشش وہاں کریں جہاں سے نوکری ملنے کی امید بھی ہو۔۔ھمارے دوست کراچی کے نوجوان صحافی کو جب 8 ماہ کہیں نوکری نہیں ملی تو اس نے کال سینٹر میں جاب کرلی ۔۔۔
ٹی وی چینلوں میں اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی ٹانگے خوب کھینچی جاتی ہیں کم سے کم اس وقت ھمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے ،،اپنے اداروں میں ویٹ لفٹروں کو دیکھیں کے وہ کس طرح افسران اعلی کے اٹھائے اٹھائے رکھتے ہیں اور آپ بھی وہ ہی کام شروع کردیں ، اپنی نوکری ضرور بچائیں مگر کسی کی ٹانگ نہ کھینچیں۔۔۔(ریحان سید)