press club ki qayadat ke sath heinn

میڈیابل پر صحافیوں کے تحفظات دور کرنے کا مطالبہ۔۔

پنجاب یونین آف جرنلسٹس، لاہور پریس کلب، پنجاب اسمبلی پریس گیلری، لاہور فوٹو جرنلسٹس ایسوسی ایشن اور ایپنک سمیت  سینئر صحافیوں پر مشتمل لاہور کے صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے نمائندہ اجلاس نے ” پاکستان میڈیا ڈویلپمینٹ اتھارٹی آرڈیننس ” کو آزادی صحافت اور صحافیوں کی آزادی پر سنگین حملہ قرار دیتے ہوئے اس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ میڈیا اتھارٹی بل پر پاکستان کے صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کرے اور اس آرڈیننس پر صحافیوں کے تحفظات دور کیے جائیں۔کسی غیر نمائندہ صحافتی تنظیم سے مذاکرات اور من مرضی سے قانون سازی اور آرڈیننس کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ لاہور پریس کلب میں پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام میڈیا اتھارٹی بل پر مشاورتی اجلاس ہوا۔ اجلاس میں پی یوجے کے صدر قمرالزمان بھٹی، جنرل سیکرٹری خواجہ آفتاب حسن، صدر لاہور پریس کلب ارشد انصاری، پنجاب اسمبلی پریس گیلری کے صدر افضال طالب، لاہور فوٹو جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری پرویز الطاف،ایپنک لاہور کے رہنما اور ڈان ورکرز یونین لاہور کے صدر اصغر خان سمیت پی ایف یوجے کے خزانچی ذوالفقار علی مہتو، ممبر ایف ای سی سعید اختر، سینئر صحافی اور پی یوجے کے سابق صدر عطا المصور، دین محمد درد ، مبشر بخاری ،محمد اکرم ،ارشد یاسین،اشرف سہیل، اظہر غوری،سعدیہ صلاح الدین، ضمیر آفاقی،حمزہ اظہر، ندیم شیخ نے خطاب کرتے ہوئے پاکستان میڈیا اتھارٹی آرڈیننس کو جمہوریت کے خلاف اور آزادی صحافت واظہار پر حملہ قرار دیا۔ مقررین کا کہنا تھا کہ حکومت نے آج تک اس بل پر صحافیوں کی نمائندہ تنظمیوں کو اعتماد میں نہیں لیا۔ کٹھ پتلی اور پاکٹ اور واٹس ایپ پر بننے والی نام نہاد یونین سے ساز باز کر کے حکومت آزادی صحافت پر حملہ آور ہے۔اجلاس کے شرکاءنے ایک متفقہ قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا کہ پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام لاہور پریس کلب، پنجاب اسمبلی پریس گیلری ، لاہور فوٹو جرنلسٹس ایسوسی ایشن اور ایپنک سمیت سینئر صحافیوں پر مشتمل یہ نمائندہ اجلاس قرار دیتا ہے کہ پاکستان میڈیا اتھارٹی بل صحافیوں اور میڈیا کی آزادی کو شکنجے میں جکڑنے کا قانون ہے۔جس میں پرنٹ میڈیا۔الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا وفلم کو ایک ہی قانون کے تحت لا کر چوں چوں کا مرتبہ تیار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ اجلاس سمجھتا ہے کہ حکومت اس بل اور آرڈیننس کے ذریعے صحافیوں اور آزادی صحافت کا گلا گھونٹنے پر عمل پیرا ہے۔اس بل میں صحافیوں کے لئے میڈیا ٹریبونل قائم کرنے کا جو لالی پاپ دیا گیا ہے اس کا حقیقت میں صحافیوں کو ریلیف دینے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے نیوز پیپرز ایمپلالز ایکٹ 1973 موجود ہے جس کے تحت پہلے سے ویج ایوارڈ عمل درآمد ٹریبونل موجود ہے مگر اس قانون کے تحت کبھی عمل نہیں ہوا۔ویج ایوارڈ عمل درآمد ٹریبونل کا جج گذشتہ ایک سال سے تعینات نہیں کیا گیا۔جبکہ آئی ٹی این ای کے صحافیوں کے ملازمت سے تحفظ اور واجبات کی ادائی کے جو فیصلے دیئے گئے ان پر عمل بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔یہ اجلاس سمجھتا ہے پاکستان میڈیا اتھارٹی بل میں سے نیوز پیپرز ایمپلالز ایکٹ 1973 کا خاتمہ باعث تشویش ہے جسے ہم مکمل طور مسترد کرتے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت اس بل میں نہ صرف نیوز پیپرز ایمپلالز ایکٹ کو مکمل طور پر تحفظ دے بل کہ اسی طرز پر الیکٹرانک میڈیا کے ورکرز کے حقوق کے تحفظ کے لئے سروس سٹرکچر تشکیل دیا جایا۔ یہ اجلاس صحافی برادری کے دیرینہ مطالبہ کے تحت مطالبہ کرتا ہے کہ اگر حکومت صحافیوں کے لئے درد دل رکھتی ہے تو پرنٹ میڈیا کے ورکرز کے لئے ویج ایوارڈ اور تنخواہوں کی بروقت ادائی کو سرکاری اشتہارات سے مشروط کیا جائے جبکہ الیکٹرانک میڈیا کے سروس سٹرکچر پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لئے سرکاری اشتہارات سے مشروط کیا جائے۔ یہ اجلاس حکومت سے یہ مطالبہ بھی کرتا ہے کہ وہ تمام میڈیا مالکان کو پابند کرے کہ وہ میڈیا اداروں میں اپنے ورکرز کو براہ راست ملازمت دیں گے اور کوئی بھی صحافی اور میڈیا ورکرز کسی تھرڈ پارٹی کے تحت کسی کمپنی کے ذریعے میڈیا اداروں میں ملازمت پر نہیں رکھا جائے گا۔جبکہ ایسے خلاف قانون کام کرنے والے میڈیا مالک کو سخت سزا دی جائے گی۔(یاد رہے میڈیا مالک اپنی نجی کمپنیوں کے ذریعے میڈیا ورکرز کو ملازمت پر رکھ کر ان کے حقوق ویج ایوارڈ اور دیگر سے محروم کردیتے ہیں جو سخت زیادتی ہے)۔ یہ اجلاس سوشل میڈیا پر متحرک صحافیوں عامر میر، عمران شفقت، رضوان رضی سمیت دیگر صحافیوں کے خلاف ایف آئی اے کی طرف سے گرفتاریوں اور مقدمات کے اندراج کو بھی گہری تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ صحافیوں کے خلاف ایف آئی اے کی کارروائیوں کو روکا جائے اور صحافیوں کو مکمل تحفظ دیا جائے۔ یہ اجلاس سینئر جرنلسٹ اور جیو کے پروگرام کیپٹل ٹاک کی تین ماہ سے زائد بندش پر بھی تشویش کا اظہار کرتا ہے اور جیو نیوز کی انتظامیہ سے مطالبہ کرتا ہے کہ حامد میر کا پروگرام فوری طور پر شروع کیا جائے۔ قرارداد میں سوشل میڈیا صحافیوں کو سخت قوانین اور لائسنس کی آڑ میں غیر اعلانیہ طور پربھاری فیسوں اور تجدید فیس سمیت یو ٹیوب چینل پر بولی کی مد میں بھاری فیسوں کو بھی عوام کے حق اظہار کو چھیننے کے مترادف قرار دیا گیا۔اسی طرح بل میں 11 رکنی سرکاری مشینری کے تحت اتھارٹی کو بھی میڈیا کی آزادی کو قابو کرنے والی فورس قراردیا گیا اور اس بل کو پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے بجائے پاکستان میڈیا ڈی ویلویشن اتھارٹی قرار دیا۔ اجلاس میں بل پر مزید تفصیلی غور کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا سربراہ عطا المصور کو مقرر کیا گیا۔ ممبران میں دین محمد درد، سعید اختر،مبشر بخاری، محمد اکرم شامل ہوں گے جبکہ صدر پی یوجے قمرالزمان بھٹی اور صدر لاہور پریس کلب اس کمیٹی کو کوآرڈینیٹ کریں گے۔ اجلاس میں لاہور پریس کلب کے جوائنٹ سیکرٹری خواجہ نصیر، پی یوجے کے نائب صدر محمد بابر۔ خزانچی ندیم شیخ، ممبر ایگزیکٹو کونسل جاوید ہاشمی، قمر جبار،خاور بیگ، عمران چودھری ، ممبر گورننگ باڈی لاہور پریس کلب عمران شیخ، نفیس قادری، صداقت مغل ،پی یوجے دستور کے رہنما عباد اللہ بابر بٹ، حسان احمد،یامین صدیقی، رانا عرفان ،فاروق انور حارث ، شبیر حسین صادق،قیوم زاہد، صلاح الدین بٹ، جمال احمد، طارق کامران،طارق چوہدری، کامران ارشد، نوید عامر سیمت دیگر صحافی شریک ہوئے۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں