تحریر: عاصمہ شیرازی۔۔
طاقت اور اختیار سوچ اور فکر کو خواہشات کا غلام بنا لیتی ہیں اور خواہشات کو وہاں لے جاتی ہیں جہاں سے واپسی ناممکن ہو جاتی ہے۔ ماضی میں ایسے کئی کردار گُزرے ہیں جن کی حکمرانی کی طاقت اور اختیار کے نشے نے تاریخ میں اپنا نام سیاہ حرفوں میں لکھوایا۔ہاں اور نہیں، درست اور غلط، جھوٹ اور سچ کی کشمکش تخلیق کائنات کے ساتھ ہی ہو گئی اور آج بھی جاری ہے۔ بعض فیصلے تاریخ پر چھوڑ دینے چاہییں کہ درست سمت میں کون تھا اور غلط راستہ کس نے منتخب کیا۔
وطن عزیز فیصلہ کُن مرحلے سے گزر رہا ہے۔ نازک اور دلچسپ مرحلوں سے ہم کئی بار گُزر چکے تاہم اب ملک کو فیصلہ کُن مرحلے پر کھڑا کر دیا گیا ہے۔ اس کی ذمہ داری بہت سوں پر آتی ہے لیکن کچھ پر کہیں زیادہ عائد ہوتی ہے۔ذمہ داری کا بوجھ ہمیشہ دوسروں پر ڈالنے والے یقیناً اب اس سے آزاد نہ ہو پائیں گے۔ معیشت، سیاست اور اب صحافت پر پابندیوں کا بوجھ کس کے پلڑے میں آئے گا اس کا فیصلہ تاریخ پر ہی چھوڑ دیتے ہیں۔
گذشتہ 70 برسوں میں ملک میں کئی مقدس لوگوں کا راج رہا ہے۔ 40 سال حکمرانی کرنے والے فوجی آمر جب گئے تو نام و نشان تک نہ رہا۔ اُن کے ادوار میں اُن کے سامنے دم مارنے کی جرات بہت کم لوگوں میں تھی۔ سیاست اور صحافت پر لگی پابندیوں کو چیلنج کرنے والے مگر آج بھی زندہ ہیں۔جھوٹی خبریں کل بھی پاکستان میں پھیلائی جاتی رہیں اور پھیلانے والے جھوٹی خبروں کے خلاف خود ہی جہادی بنے رہے۔جنرل ضیا الحق کے زمانے میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف جھوٹی خبروں کا نیٹ ورک اس قدر وسیع تھا کہ انھیں جیل سے ہی اُس جھوٹے پراپیگنڈے کا جواب کبھی ’اگر میں قتل کر دیا گیا‘ اور کبھی ’افواہ اور حقیقت‘ کے نام سے کتابوں کے ذریعے دینا پڑا۔
بھٹو خاندان کے پُرانے ساتھی اور چیئرمین بھٹو لیگیسی فاؤنڈیشن بشیر ریاض کی کاوشوں سے الطاف احمد قریشی نے بھٹو صاحب کی دوران قید کتاب کاترجمہ ’افواہ اور حقیقت‘ کے عنوان سے کیا ہے۔اس کتاب میں درج واقعات آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں کہ کس طرح پراپیگنڈا مشینری نے مرحوم عطا اللہ مینگل کے صاحبزادے اور اختر مینگل کے بھائی اسد اللہ مینگل کے اغوا اور قتل کا الزام ذوالفقار علی بھٹو پر لگا دیا جس کے بارے میں سچ بھٹو صاحب نے اس کتاب میں نہ صرف لکھا ہے بلکہ اغوا کاروں کے نام بھی تحریر کیے ہیں۔
افواہ کے نام پر آج جس پراپیگنڈے کا آغاز ہو چکا ہے وہ بے مقصد ہرگز نہیں۔ اس پراپیگنڈے کی تیاری میں کئی سال لگے ہیں۔ جھوٹ کو سچ بنانے میں سرکاری اور ریاستی مشینری جس طرح استعمال ہو رہی ہے اس کے بھی کچھ مقاصد ہیں۔غیر جانبدار جو کبھی غیر جانبدار نہیں رہے اب کیوں خاموش ہیں؟ در پردہ کندھے اُچکا کر گزر جانے والے مقتدر آخر کس کے جانبدار ہیں اور میڈیا پر پابندیوں کے مقاصد کیا ہیں؟
سمجھ سب کو آ رہا ہے مگر خوف کی اس فضا میں آوازیں دب گئی ہیں؟ المیہ یہ ہے کہ جن لوگوں کو آلہ کار بنا کر یہ فضا بنائی جا رہی ہے اس کا فائدہ بھی کوئی اور ہی اُٹھائے گا۔تاریخ کا ایک کردار ہٹلر بھی تھا جس نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے اس قدر جھوٹ کی عمارت کھڑی کی کہ وہ خود اُس عمارت کے نیچے دب گیا۔ ’جھوٹ اتنا بولو کہ سچ لگنے لگے‘ کے مقولے پر عمل کرنے والا گوئبلز آج بھی سچ کی ضد ہے۔ایجنڈا جس کسی کا بھی ہے اور پراپیگنڈہ کیسا ہی کیوں نہ ہو، نہ تو جھوٹ کے پاؤں ہوتے ہیں اور نہ ہی جھوٹ بولنے والوں کی شناخت۔سچ اپنا راستہ ویسے ہی بنا لیتا ہے جس طرح بہتا ہوا دریا۔ خود کلامی کے شکار معاشرے اپنی آواز سے بھی ناآشنا ہو جاتے ہیں۔ گونگا، بہرا اور اندھا معاشرہ کس کے کام آتا ہے، کاش تحریک انصاف کی حکومت کو یہ سمجھ میں آ جائے؟
صحافیوں نے کل بھی مقابلہ کیا ہے اور آئندہ بھی کریں گے۔ کل جو مقدس گائے تھیں اب ایک اور کا اضافہ ہو جائے گا تو پھر کیا ہو گا؟ میڈیا پر پابندیوں کے خیال کا ماخذ کوئی بھی ہے اُسے تاریخ سے کچھ سبق حاصل کرنا ہو گا۔۔(بشکریہ بی بی سی اردو)