تحریر: خرم شہزاد۔۔
میڈیا کے لیے اگر ننگا کا لفظ بولنے کی اجازت ہو تو آج کی صورت حال میں شائد یہ لفظ سب سے بہتر رہے گا کہ موجودہ صورت حال میں میڈیا ایک حساس اور درد دل رکھنے والے پاکستانی کے سامنے ننگا ہوا کھڑا ہے لیکن حساس اور درد دل کے ساتھ پاکستانی کی اضافی خصوصیت والے افراد آج اس معاشرے میں تلاش کرنے بہت مشکل ہو چکے ہیں ، اسی لیے میڈیا کا ننگا پن ہمارے لیے خوشی اور مسرت کا باعث ہے ۔ دوسرے لفظوں میں اسے پبلک ڈیمانڈ بھی کہا جا سکتا ہے۔ میڈیا کے ننگے پن کی آشکاری کے جہاں دوسرے بہت سے عوامل ہیں وہیں حسان ایڈوکیٹ ایک بہت بڑی وجہ اور مثال ہے۔ وکلا اور ڈاکٹروں کی لڑائی میں ڈھائی سے تین ہزار وکلا نے ہسپتال پر دھاوا بولا، لڑائی مار کٹائی کی بہترین اور لائیو شوٹنگ میڈیا نے اپنے دیکھنے والوں تک پہنچائی لیکن گلا پھاڑتے اینکروں کو صرف ایک حسان نامی وکیل نظر آیا جو وزیر اعظم عمران خان کا بھانجا ہے۔ میڈیا کا سیاپا کمال کا رہا کہ ہر ٹکر اور ہیڈ لائن میں صرف وزیر اعظم کے بھانجے کے کرتوت دیکھا کر سوال اٹھائے جانے لگے کہ اب وزیر اعظم کیا کرتا ہے؟ کیا وزیر اعظم کے بھانجے کو گرفتار کیا جائے گا؟ کیا یہ ہو گا، کیا وہ ہو گا؟ اپوزیشن کو بھی تماشہ کرنے اور میڈیا کی سکرینوں پر آنے کا بہانہ مل گیا ورنہ کیمرے اور مائیک کو ترسے ہوئے سیاست دانوں کے پاس اب میڈیا سکرینوں پر آنے کے لیے رہا ہی کیا ہے۔ سینکڑوں وکلا کے بیچ موجود حسان کو مختلف طرح سے ہائی لائٹ کرتے ہوئے اس کی وڈیوز سامنے لانے کے ساتھ اینکر اور میڈیا پرسن خبریں ، مذاکرے اور تجزئے کرنے میں لگے ہوئے ہیںاور معاشرے کے کند ذہن لوگ سکرینوں سے چپکے ہوئے بیٹھے ہیں کہ جیسے ان کے جینے مرنے کا معاملہ سب اس گرفتاری سے وابسطہ ہو چکا ہے۔
کمال خوبی ہمارے معاشرے اور لوگوں کی یہ رہی کہ کوئی سوال ہی نہیں کرتا کہ کیا حسان کے ماں باپ مر چکے ہیں اور وہ کوئی یتیم و یسیر بچہ تھا جس کی پرورش عمران خان نے کی ہے جو آپ باقی سارے رشتے ناطے چھوڑ کر صرف عمران خان کو یاد کر رہے ہیں؟ ہمارے ہاں کسی بھی شخص کے کردار و افعال کا ذمہ دار پہلے تو وہ شخص بذات خود ہوتا ہے ، نہیں تو گلہ شکوہ اس کے والد سے کیا جاتا ہے لیکن پہلی بار دیکھنے کو آ رہا ہے کہ باپ کا کہیں ذکر ہی نہیں، کسی اور کا پتہ ہی نہیں اور صرف عمران خان ، عمران خان کا رٹا لگا ہوا ہے۔ کوئی پوچھے کہ حسان انسان نہیں کیا کوئی ایپ ہے جسے عمران خان نے ڈاون لوڈ کیا تھا یاکسی پودے سے توڑ کر گھر لے گیا تھا کہ اب وہ اسی کے نام سے جانا اور پہنچانا جائے گا؟ کوئی تو کھوج لگائے کہ اس کا والد کون ہے؟ کوئی تو پوچھے کہ جیو نیوز پر بیٹھے شخص سے حسان کا کیا رشتہ ہے؟ کہیں سے ڈھونڈ کر لاو، دیکھاو حسان کی بد کرداری کا وہ اشتہار جو کسی اخبار میں شائع ہوا ہو والد کی طرف سے اور اسے عاق کر دیا ہو، چلو مان لیں کہ پھر عمران خان نے اسے پالا پوسا ہے۔ اگر کوئی پارٹی کی طرف سے رابطہ جوڑنے کا خواہش مند ہے ، چونکہ حسان پی ٹی آئی کا رکن ہے اس لیے عمران خان پر تنقید ہو رہی ہے تو ایسے سوال میڈیا میں تو برسوں سے اٹھائے جا رہے ہیں کہ اب ہر چوتھے نائی اور قصائی کی جیب میں کسی نہ کسی اخبار یا چینل کے بیورو چیف نہ سہی نمائندے کا کارڈ ملنا عام سی بات ہے۔ ہر ماہ کہیں نہ کہیں کوئی جعلی صحافی گرفتار ہوا ہوتا ہے لیکن اس کی خبر کے ساتھ متعلقہ میڈیا چینل کے سیٹھ کی تصویر لگا کر تو کبھی رونمائی نہیں کی جاتی کہ یہ دیکھئے فلاں میڈیا چینل کے مالک کو جس کے میڈیا ہاوس کا جعلی کارڈ فلاں شخص کی جیب سے برآمد ہوا ہے۔ کہیں صحافی بے روزگاری سے مر رہے ہیں تو کہیں مہینوں تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے سڑکوں پر ہیں لیکن ان سارے واقعات میں کسی ایک میڈیا چینل کے مالک یا عہدیدار کا نام اور تصویر کہیں نظر آئی ہو تو کوئی بتائے؟ اور یہی سوال ملک بھر میں موجود ہر طرح کے اداروں اور لوگوں کے بارے میں بھی اٹھائے جا سکتے ہیں کہ جب وہاں ہر شخص انفرادی طور پر اپنے کردار اور افعال کا جوابدہ ہے تو یہاں عمران خان کا نام کیوں اچھالا جا رہا ہے؟
واقعے کے تیسرے دن حسان کے والد میڈیا کو کہتے ہیں کہ حسان نے جو کیا ٹھیک کیا، وہ ایک وکیل ہے اور جانتا ہے کہ اسے کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے، اس واقعے میں بطور باپ اور بطور ایک شہری میں اس کے ساتھ کھڑا ہوں۔والد ساتھ کھڑا ہے ، دفاع کر رہا ہے لیکن میڈیا کا کوا سفید ہی ہے کہ نہیں جی عمران خان ، عمران خان۔کیا اس صورت حال میں یہ نہیں پوچھنا چاہیے کہ میڈیا کی آنکھ میں کوئی شرم و حیا موجود بھی ہے کہ نہیں؟ کیا میڈیا کا یہ رویہ کسی بھی اخلاقی درجے تک پہنچتا ہے اور بھلا یہ کون سی صحافتی اخلاقیات کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے؟ پوری دنیا میں ہم پاکستان اور وزیر اعظم پاکستان کی کون سی تصویر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ افسوس اس بات کا ہے کہ اس صورت حال میں مجھے فواد چوہدری یاد آ رہا ہے جس نے کہا تھا کہ اگر میں چند کروڑ کے اشتہار ان کے منہ پر دے مارتا تو یہ ہر وقت ہمارے گن گاتے پھرتے۔ میڈیا ہر طرح کی شرم و حیا اور غیرت بالائے طاق رکھ کر چوک میں ننگا ہوا کھڑا ہے لیکن ہم یعنی عام آدمی اس ننگے پن پر کوئی تنقید نہیں کر رہے بلکہ اس کو انجوائے کر رہے ہیں اور ہماری پینتالیس فیصد دماغی نشوونما کی کمی آج ہمیں یہ سوال بھی نہیں کرنے دے رہی کہ جس معاشرے میں ننگے پن کو انجوائے کیا جانے لگے، اس معاشرے کی کیا عزت باقی رہ جاتی ہے اور وہ معاشرہ خود کتنا عرصہ باقی رہ پاتا ہے؟ آپ مت سوچئے کیونکہ یہ آپ کے سوچنے کا کام نہیں ، آپ صرف یہ دیکھئے کہ وزیر اعظم کے بھانجے کی تازہ وڈیوکون سی آئی ہے اور کب عمران خان صرف اس وجہ سے حسان کو جیل میں ڈلواتا ہے کہ وہ اس کا بھانجا ہے۔ ڈھائی تین ہزار وکلا کا کیس ختم ہوا، ہسپتال میں مرنے والے کیڑے مکوڑے تھے، ڈاکٹروں کے رویے گئے بھاڑ میں ، آپ اپنی توجہ صرف اور صرف عمران خان کے بھانجے پر رکھیں کہ آپ کے جینے مرنے اور بچوں کے مستقبل کا انحصار اب اسی پر ہے۔یہ سب میڈیا کی بد معاشی نہیں تو اور کیاہے؟(خرم شہزاد)