تحریر: ڈاکٹر سکندر زرین
گزشتہ روز ایک نیوز چینل بند ہو گیا۔ سیکڑوں ملازمین بے روزگار، دربدر ہو گئے۔ یہ تاثر غلط ہے سوشل میڈیا مین اسٹریم میڈیا کھا رہا ہے۔ نہیں! ایسا نہیں ہے۔ میڈیا اپنے مواد کی نشر و اشاعت سوشل میڈیا نیٹ ورکنگ کے ذریعے کرتے ہوئے مزید جی سکتا ہے۔ شرط مگر یہ ہے چینلز پہ بیٹھے بڑے بوڑھے دو چیزوں کو سمجھ لیں۔ وہ ہیں خبری حس اور عوامی دلچسپی۔
آف لائن جرنلزم یعنی روایتی میڈیا کی جو اصل طاقت ہے وہ ہے بھروسہ، ٹرسٹ اور اتھنسیٹی۔ سوشل میڈیا ہنوز پروپیگنڈہ مشینری ہے۔ سوشل میڈیا سے نکلنے والی خبر یا مبنی بر خبر مواد کی تصدیق کے لیے خلقت آج بھی مین اسٹریم میڈیا سے ہی رجوع کرتی ہے۔ یا یہ کہ سوشل میڈیا پر بھی قابل بھروسہ جنوئن صحافیوں کے اوپر ہی اعتماد کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا اگر آن لائن جرنلزم، ویب جرنلزم یا ڈیجیٹل میڈیا جیسی اصطلاحات کا روپ دھار رہا ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے۔
اب سے کچھ برس پہلے تک چینل انڈسٹری میں بڑھے بوڑھوں کا اس بات پہ ناز ہوتا تھا کہ وہ “اخبار کے آدمی” ہیں یعنی پہلے اخبار میں کام کیا ہے، سو نیوز سینس رکھتے ہیں۔ مگر اب پاکستان کی سماجی سائیکی اور میڈیا تقاضوں میں بڑی شفٹ آ چکی ہے۔ یہ اخباری بابے آج کی “پبلک” کی انٹرسٹ کو نہیں سمجھتے۔ اب تو اخبار پڑھا ہی نہیں جاتا۔ سو نیوز چینلز کو وینٹیلیٹر پہ جانے سے بچانا ہے تو زمانے کے آدمیوں کو چینلز پہ بٹھانا پڑے گا۔ اب کوئی بتائے اتنا تھکل پی ایس ایل جو لوگ دیکھ ہی نہیں رہے پر ہفتوں میراتھن ٹراننسمیشن چلاؤ گے تو کون دیکھے گا؟ پی ایس ایل میں ایسی کیا “نیوز” ہے جو پورا ڈیڑھ مہینہ ہر دن اس فلاپ ایونٹ کو پیٹا جا رہا ہے؟ قاضی فائز عیسیٰ کو لائیو شو کا چسکا لگ گیا۔ آپ نے دن بھر کورٹ دکھانا شروع کر دیا؟ ان عدالتوں اور آج کی معمول کی کارروائیوں میں پبلک کا کیا انٹرسٹ ہے؟ کیا میڈیا پلاننگ کرنے والوں نے پچھلے پانچ برس میں کوئی مارکیٹ ریسرچ کی ہے؟ سکندر بخت اور کامران اکمل میں ایسا کیا ہے جو آج کی نسل انہیں دیکھنے واسطے ٹی وی کھولے گی؟ اتنا بڑا ملک ہے۔ 25 کروڑ لوگ ہیں۔ ہر جا مسائل بکھرے پڑے ہیں۔ دنیا میں طرح طرح کی ایجادات ہو رہی ہیں۔ آپ کی خبر چیف جج کا تشہیری مواد ہو گی تو لوگ اپنا موبائل لے کے خود خبریں پیدا کریں گے یا آپ کے ادق کاٹٹنٹ کو گھاس ڈالیں گے؟ سو میڈیا کو مزید کچھ ٹائم دوام دینا ہے تو ڈیجیٹل سماج کی نبض پہ ہاتھ رکھنے والے زمانہ شناس صحافیوں کو زمام دینا پڑے گی۔ طرز کہن پہ اڑو گے تو زندگی کٹھن ہوئے گی۔(ڈاکٹر سکندر زرین)۔۔