تحریر: رؤف کلاسرا۔۔
امریکہ میں عمران خان کا رومانس باقی ہے۔ہم پاکستانی کچھ بھی کہتے رہیں لیکن امریکی اب بھی سمجھتے ہیں کہ پاکستانیوں کو ابھی سمجھ نہیں کہ عمران خان صاحب کیا کیا بڑے کام کررہے ہیں۔
پاکستانیوں سے پوچھا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ امریکی پاکستانیوں کو اس لیے عمران خان اچھے لگتے ہیں کہ جو کچھ پاکستان میں فیصلے ہوتے ہیں ان کا اچھا‘ برا اثر ان امریکی پاکستانیوں پر نہیں پڑتا‘ لہٰذا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ خان صاحب کی حکومت پاکستان کی بہترین حکومتوں میں سے ہے۔ پھر ڈالر کا ریٹ بڑھنے کا بھی انہیں فائدہ ہے۔وہ پاکستانی میڈیا سے ناراض لگتے ہیں اور بعض تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر خان صاحب کے وزیر اور قریبی کرپشن کررہے ہیں یا چینی سکینڈل یا گندم سکینڈل یا ادویات سکینڈل یا اب ماسک سکینڈل میں اربوں کما لیے گئے ہیں تو بھی میڈیا کو وہ سکینڈل رپورٹ نہیں کرنے چاہئیں۔ آپ حیران ہوتے ہیں۔ آپ کی آنکھوں میں حیرانی دیکھ کر وہ آپ کا منہ بند کرانے کے لیے آگے سے کہتے ہیں: تو پھر آپ لوگ زرداری اور شریف خاندان کو واپس لانا چاہتے ہیں؟ آپ انہیں ابھی بتانے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں کہ جناب ایک صحافی کیا کرے‘وہ کیسے خان صاحب کے قریبی ساتھیوں کے مبینہ اربوں روپے کمانے کے سکینڈل کو اس لیے رپورٹ نہ کرے کہ اس سے نواز شریف اور زرداری واپس آجائیں گے؟سوال یہ ہے کہ یہ بات عمران خان اور ان کے وزیر یا قریبی دوست کیوں نہیں سوچتے ؟ جو بات وزیروں یا عمران خان صاحب کے سوچنے کی ہے وہ میڈیا کیوں سوچے؟ میڈیا کو ایک طرح سے بلیک میل کیا جارہا ہے کہ حکومت میں مال بنانے والوں کو ایکسپوز کیا تو تم لوگ بالواسطہ شریف اور زرداری کو واپس لانے کے مشن پر کام کررہے ہو۔ ویسے یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ مبینہ طور پر وزیراعظم کے جو قریبی چینی گندم یا دوائیوں سے مال بنا رہے ہیں ‘وہ دراصل شریفوں اور زرداریوں کا کام آسان کررہے ہوں۔ جتنی ان سکینڈلز سے حکومت بدنام ہوگی اتنا ہی شریفوں کا فائدہ ہوگا۔ جب آپ یہ جواز دیتے ہیں تو آپ کو جواب ملتا ہے کہ چلیں پھر یہ بتائیں کہ عمران خان کی جگہ کس کو لائیں گے؟ کوئی بندہ ہی نہیں بچا… تو وہ کہتے ہیں کہ وہ آخری اُمید ہیں۔
آپ انہیں فلاسفی سے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہزاروں سال سے انسان دنیا میں آتے جاتے رہتے ہیں۔ اللہ کے نیک لوگ نہ رہے، بڑے بڑے بادشاہ نہ رہے‘ لیکن دنیا پھر بھی چلتی رہی اور‘ چلتی رہے گی۔ لوگ اہم ضرور ہوتے ہیں‘ لیکن ناگزیر کوئی نہیں ہوتا۔ جان ایف کینیڈی سے زیادہ پاپولر صدر امریکن ہسٹری میں کوئی نہیں آیا۔ جب وہ قتل ہوا تو سب کو یہی لگا تھا کہ شاید قیامت آ گئی۔ آج 60‘ 65 برس بعد بھی امریکہ چل رہا ہے اور شاید بہتر چل رہا ہے۔
خیر ایک دو چیزیں ایسی ہوئیں جنہوں نے مجھے کچھ حیران کیا۔ ایک تو ڈاکٹر عاصم صہبائی میں تبدیلی نوٹ کی۔ جس رات الیکشن ہو رہے تھے عاصم نے عمران خان کے حق میں فیس بک پر کئی چیزیں لگا رکھی تھیں اور گھر پر بھی ان سب نے ایک جشن کا سا سماں باندھا ہوا تھا تاکہ بیٹھ کر الیکشن رزلٹ کو دیکھا اور سنا جائے۔ سب کی طرح عاصم بھی عمران خان کے حق میں جوشیلے تھے۔ مجھے بھی کہتے کہ عامر متین اور آپ خان صاحب پر ہاتھ ہولا رکھا کریں۔ میں نے محسوس کیا کہ ڈاکٹر عاصم صہبائی میں اس دفعہ تبدیلی تھی۔ وہ اب عمران خان کے ویسے جوشیلے حامی نہیں رہے۔ اگرچہ عاصم صہبائی کے والد شاہین صہبائی عمران خان کے حق میں دلائل دیتے نظر آتے ہیں‘ عاصم کی امی افسانہ صاحبہ بھی عمران خان کی سپورٹر ہیں‘ اس کے باوجود عاصم صہبائی عمران حکومت سے زیادہ متاثر نہیں لگ رہا تھا۔ جب عاصم کے ابو اور امی مجھ پر چڑھائی کیے ہوئے تھے تو عاصم صہبائی میری سپورٹ کر رہا تھا۔ اس نے دو تین دفعہ کہا: ابو‘ امی جو سوالات رئوف بھائی اُٹھا رہے ہیں آپ ان کا بھی تو جواب دیں۔ لگ رہا تھا عاصم صہبائی بھی اس اٹھارہ بیس ماہ کے اقتدار اور پالیسیوں سے مطمئن نہ تھے‘ حالانکہ جتنا میں نے عاصم کو اپنے امی ابو کا احترام اور پیار کرتے دیکھا ہے کسی کو نہیں دیکھاہوگا۔ وہ ماں باپ پر جان چھڑکتا ہے‘ لیکن اس معاملے میں اسے لگ رہا تھا کہ عمران خان صاحب سے بات نہیں بن پارہی۔
اسی طرح کا ایک منظر اکبر چوہدری کے گھر بھی دیکھا جہاں نرگس بھابھی اور اکبر چوہدری بڑے زوروشور سے عمران خان کی تعریفوں کے پل باندھ رہے تھے۔ میزکے اردگرد میرے علاوہ اکبر چوہدری اور نرگس بھابی کی بیٹی ماہم بھی موجود تھیں جبکہ اکبر چوہدری کی چھوٹی سی ایک بھتیجی ہر ایک سے پوچھتی پھر رہی تھی کہ وہ عمران خان تو نہیں؟ اکبر چوہدری کا عمران خان کے ہسپتال کے لیے چندہ اکٹھا کرنے میں بڑا اہم رول ہے۔ عمران خان امریکہ جاتے تو اکبر چوہدری کے اسی گھر میں ٹھہرتے۔ نرگس بھابھی کہنے لگیں: عمران خان طبیعت کا سادہ بندہ ہے‘ دو تین شرٹس اور ایک جینز کے ساتھ پورا امریکہ وہ اور اکبر پھر لیتے تھے۔
میرے‘ چوہدری صاحب اور نرگس بھابی کے درمیان بحث ہورہی تھی اور ان کی بیٹی ماہم چپ کرکے سن رہی تھی۔ ماہم شوکت خانم ہسپتال کے کئی فنڈز ریزنگ فنکشنز میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہے اور فنکشنز میں سٹیج کا کام بھی سنبھالتی رہی ہے۔ وہ کافی دیر تک ہماری باتیں سنتی رہیں۔ آخر وہ اپنے ماما‘ بابا کو دیکھ کر بولی: جو کچھ پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا کے ساتھ کیا جا رہا ہے‘ وہ اچھا نہیں‘ اور آپ جس طرح ان کا دفاع کررہے ہیں یہ کوئیBlind Follower ہی کرسکتا ہے۔ آپ دونوں خان صاحب کے Blind Follower ہیں‘ آزاد میڈیا کے بغیر کسی ملک میں کیسے کوئی جمہوریت چل سکتی ہے یا کوئی خود کو کیسے جمہوری لیڈر کہلوا سکتا ہے؟ ماہم نے مزید کہا: پاکستانی میڈیا کا گلہ گھونٹا جا رہا ہے اور یہ بات مجھے ہرگز پسند نہیں۔
ایک لمحے کے لیے وہاں سناٹا سا چھا گیا کیونکہ ہمارے ہاں یہ تصور نہیں کہ کوئی بچہ ماں باپ کو سیدھا بتا دے کہ ان کی سیاسی رائے درست نہیں یا جو کچھ وہ سوچ رہے ہیں وہ حرفِ آخر نہیں۔ میں نے حیرانی سے اپنے قریب بیٹھی ماہم کو دیکھا۔ ایک عجیب سی خوشی ہوئی کہ امریکہ میں پورے پندرہ دن گزارنے کے بعد اور عمران خان صاحب کے حق میں بہت سی‘ لمبی چوڑی تقریریں سننے کے بعد کوئی ایک لڑکی ایسی ملی جسے یہ فکر تھی کہ عمران خان کے دور میں جس طرح میڈیا کا گلہ گھونٹا جارہا تھا یہ پاکستانی جمہوریت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ یہ فرق تھا ان پاکستانیوں میں جو پاکستان سے امریکہ جا کر سیٹل ہوئے اور جن کے نزدیک میڈیا کی کسی ملک یا جمہوریت میں کوئی اہمیت نہیں ہوتی‘ لہٰذا ایک سیاسی لیڈر کو یہ حق ہے کہ وہ میڈیا کو کرش کر دے‘ اس کا گلہ دبا دے۔ دوسری طرف امریکہ میں پیدا ہونے والی لڑکی ماہم نے ماں باپ کے عمران خان کے ساتھ جڑے رومانس کو ایک طرف رکھ کر سیدھی بات کی کہ جو لیڈر میڈیا کی قدر نہیں کرتا وہ اس سے متاثر نہیں ہے۔ پندرہ دن میں یہی سنتا رہا کہ پاکستان میں سارا قصور میڈیا کا ہے اور یہاں ایک لڑکی نے ایک منٹ میں بات ختم کر دی تھی کہ اندھے فالوورز نہ بنیں۔ جو لیڈر میڈیا کی آزادی پر یقین نہیں رکھتا اس کو سیریس نہیں لیا جا سکتا۔ امریکی جمہوریت کے کلچر اور آزادی سے سوچنے کی روایت نے وہاں کے پاکستانیوں کی نئی نسل میں کم از کم یہ شعور پیدا کر دیا ہے کہ بغیر آزاد میڈیا کے پاکستانی جمہوریت قائم نہیں رہ سکے گی۔ جو بات ماہم سمجھ چکی ہے‘ پندرہ دن میں ایک بھی پاکستانی نہ ملا جو یہ سمجھتا ہو۔ سب پاکستانی میڈیا سے نالاں نظر آئے اور اکیلی ماہم عمران خان کی میڈیا پالیسیوں سے نالاں۔ وہی ماہم جو عمران خان کے فنکشنز میں ہوتی تھی۔ اس بچی کو بھی سمجھ ہے‘ لیکن بڑوں کو کون سمجھائے؟
شکریہ ماہم‘ چلیں پورے امریکہ میں کوئی ایک تو ایسا ملا جسے اس کا پتہ ہے کہ جمہوریت نے زندہ رہنا ہے تو میڈیا کو آزاد رہنا ہوگا اور کوئی تو ہے جو اپنی آزاد رائے رکھتا ہے۔ کوئی تو ہے جو ماں باپ کے منہ پر کہہ دے کہ وہ ان کی طرح کسی کی Blind Follower نہیں کہ حکومت پاکستان میں میڈیا اور سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن کرتی رہے اور وہ تالیاں بجاتی رہے۔(بشکریہ دنیا)۔۔