تحریر: جاوید چودھری۔۔
میں بتاتا ہوں آپ لوگ کتنے جھوٹے ہیں‘ کیا آپ میرا سچ برداشت کریں گے‘‘ میں نے میسج پڑھا‘ ڈی پی دیکھی‘ وہ درمیانی عمر کے کوئی صاحب تھے‘ میں نے میسج کا جواب لکھا ’’سر میں حاضر ہوں‘ آپ باقی لوگوں کو چھوڑ دیں‘ آپ بس مجھے بتادیں میں نے کب اور کون سا جھوٹ بولا‘‘ تھوڑی دیر بعد جواب آیا ’’آپ نے ٹیلی ویژن پر بار بار کہا تھا میاں نواز شریف شدید بیمار ہیں اور حکومت کو انھیں علاج کے لیے باہر بھجوا دینا چاہیے‘ یہ بات غلط ثابت ہوگئی۔
میاں نواز شریف اپنی ٹانگوں پر چل کر جہاز میں سوار ہوئے اور وہ لندن پہنچ کر واک بھی کرتے رہے اور ریستورانوں میں کھانے بھی کھاتے رہے‘ آپ اور آپ کے ساتھیوں نے جان بوجھ کر یہ جھوٹ گھڑا تھا‘‘ میں مسکرا اٹھا اور میں نے ان سے عرض کیا ’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں‘ یہ ہماری غلطی تھی‘ ہم حکومتی رپورٹس کے فریب میں آ گئے تھے‘ ہمیں سرکاری میڈیکل بورڈز کی رپورٹس کو سچ نہیں ماننا چاہیے تھا‘ ہمیں پاکستان کے خون کے تمام بڑے ایکسپرٹس کی رائے بھی مسترد کر دینی چاہیے تھی۔ہمیں پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کی وہ میڈیا ٹاکس بھی مسترد کردینی چاہیے تھیں جو وہ سروسزاسپتال کے سامنے کھڑی ہو کر کرتی تھیں اور وہ ان ٹاکس میں اپنے منہ سے کہتی تھیں میاں نواز شریف کی طبیعت نازک ہے‘ ان کے پلیٹ لیٹس بہت کم ہیں‘ ڈاکٹر یاسمین راشد نے ایک دن یہ بھی کہہ دیا تھا پنجاب حکومت کا جہاز ائیر پورٹ پر تیار کھڑا ہے‘ میاں صاحب کی فیملی جہاں سے چاہے ڈاکٹر لے آئے‘ جو دوائی چاہے لے آئے‘ ہمیں ان کی باتوں پر یقین نہیں کرنا چاہیے تھا۔
ہمیں وفاقی کابینہ میں وزیراعظم عمران خان کے اس دعوے کو بھی مسترد کر دینا چاہیے تھا جس میں انھوں نے اپنے منہ سے اقرار کیا تھا میں نے شوکت خانم اسپتال کے سی ای او ڈاکٹر فیصل سلطان کو معائنے کے لیے بھجوایا تھا‘ مجھے ڈاکٹر فیصل نے کنفرم کیا میاں نواز شریف کی صحت ٹھیک نہیں لہٰذا ہم انھیں علاج کے لیے باہر جانے کی اجازت دے رہے ہیں اور ہمیں لاہور ہائی کورٹ کے اس بینچ کے حکم کو بھی مسترد کر دینا چاہیے تھا جس کے تحت میاں نواز شریف کو علاج کے لیے باہر بھجوایا گیا تھا لہٰذا میں آپ سے معذرت چاہتا ہوں۔ہم نے پانچ میڈیکل بورڈز‘ پنجاب حکومت‘ وفاقی کابینہ‘ وزیراعظم اور لاہور ہائی کورٹ پر یقین کر کے غلطی کی‘ ہم میڈیا پرسنز کو چاہیے تھا ہم خود نواز شریف کے پاس جاتے‘ان کے خون کے نمونے لیتے‘ خود ان کے پلیٹ لیٹس چیک کرتے اور پھراسٹوڈیو میں بیٹھ کر سو فیصد سچ بولتے‘‘۔وہ صاحب غائب ہو گئے لیکن کل مجھے چلتے چلتے ایک خاتون نے روک لیا اور غصے سے کہا ’’تم لوگوں نے میاں نواز شریف کی بیماری پر کتنا جھوٹ بولا تھا‘‘ میں نے ان سے عرض کیا ’’میں آپ سے معافی چاہتا ہوں‘ یہ ہماری آخری غلطی تھی۔
ہم اب چینلز کے اندر میڈیکل لیبارٹریز بنا رہے ہیں‘ ہم وہاں سیاست دانوں کے خون کے نمونے لیں گے‘ ان کے ایکسرے‘ ای سی جی اور ایم آر آئی کریں گے‘ ان کے دل‘ دماغ اور پھیپھڑوں کا سائز ناپیں گے اور پھر اعلان کریں گے یہ واقعی بیمار ہیں یا صحت مند ہیں‘ ہم ان شاء اللہ اپنی لیبارٹریوں میں کورونا کے ٹیسٹ بھی شروع کر دیں گے تاکہ قوم کو کورونا کے بارے میں بھی اصل حقائق بتائے جا سکیں اور اگر ممکن ہوا تو ہم اپنے شوز میں پولی گرافک ٹیسٹ کی مشینیں بھی لگا دیں گے تاکہ قوم لائیو جان سکے کون کون سچ بول رہا ہے اور کون جھوٹ‘‘ خاتون میری طرف غور سے دیکھتی رہی۔ میں خاموش ہوا تو وہ بولی ’’آپ مذاق تو نہیں کر رہے‘‘ میں نے عرض کیا ’’ہرگز نہیں‘ میں دل سے سمجھتا ہوں یہ ساری سہولتیں تمام ٹیلی ویژن چینلز میں ہونی چاہییں بلکہ ہمیں اسٹوڈیوز میں آپریشن تھیٹر بھی بنا لینے چاہییں تاکہ ہم شوز کے درمیان چھوٹے موٹے آپریشن بھی کر دیا کریں‘‘ ان کو غصہ آ گیا اور وہ پائوں پٹختی ہوئی آگے نکل گئیں۔
میں اعتراف کرتا ہوں میں پوری زندگی میڈیا میں گزارنے کے باوجود میڈیا کے بارے میں عوام کی توقعات نہیں سمجھ سکا‘ لوگ آخر میڈیا سے چاہتے کیا ہیں؟ ایک طرف حالت یہ ہے بجلی بند ہو جائے‘گیس نہ آ رہی ہو‘ اسکول کی عمارت ادھوری رہ جائے‘ سڑک نہ بنے‘ پولیس ایف آئی آر نہ درج کرے‘ ٹرین‘ بس یا فلائیٹ نہ چلے یا پھر ڈاکٹر مریض نہ دیکھے تولوگ متعلقہ ادارے سے رابطہ نہیں کریں گے‘ یہ میڈیا کو فون کر دیں گے‘ کورونا کی وجہ سے اس وقت دنیا کے مختلف ملکوں میں پاکستانی پھنسے ہوئے ہیں‘ یہ وہاں بیٹھ کر کیا کر رہے ہیں؟
یہ ویڈیوز بناتے ہیں اور یہ مختلف چینلز کو بھجوا دیتے ہیں‘ چینلز ان کی خبریں چلا دیتے ہیں اور حکومت جہاز بھجوا کر انھیں پاکستان لے آتی ہے چناں چہ ملک کا ہر طبقہ مشکل وقت میں حکومت کی طرف نہیں دیکھتا‘ لوگ وزیراعظم کے پورٹل پر شکایت درج نہیں کرتے‘ یہ اینکرز اور رپورٹرز کو فون کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی میڈیا جھوٹا بھی ہوتا ہے‘ لوگ ہمیں جی بھر کر گالیاں بھی دیتے ہیں‘کیوں؟میں آج تک وجہ نہیں جان سکا‘ ہمارے کولیگز حامد میر‘ محمد مالک اور منصور علی خان اس وقت گالیوں کی خوف ناک گولہ باری کا شکار ہیں‘ کیوں؟ میں یہ وجہ بھی نہیں جان سکا! میں تینوں کو ذاتی طور پر جانتا ہوں‘منصور علی خان نوجوان اینکر ہیں‘ یہ بہت محنت کر رہے ہیں‘ دن رات کام کرتے ہیں‘ حامد میر کو میں 25 سال سے جانتا ہوں‘ یہ 1994ء میں میرے باس بھی رہے‘ میں نے ان کی ایڈیٹر شپ میں کام کیا تھا۔
میں22سال سے ان کا ریڈر بھی ہوں اور ویور بھی‘ آپ ان سے ہزار اختلاف کر سکتے ہیں لیکن جہاں تک ان کے صحافتی کیریئر کی بات ہے تو یہ ایک جینوئن صحافی ہیں‘ میں نے انھیں اپنی آنکھوں سے ایک ایک انچ آگے بڑھتے دیکھا‘ یہ ملک میں ’’تھری پلس ون‘‘ سیاسی ٹاک شو کے بانی بھی ہیں اور یہ اٹھارہ سال سے مسلسل شو بھی کر رہے ہیں‘ مجھے سمجھ نہیں آتی لوگ آخر ان کے خلاف کیوں ہیں‘ یہ انھیں گالیاں کیوں دیتے ہیں؟ یہ اگر غدار ہیں‘ یہ اگر کرپٹ ہیں‘ یہ اگر جعلی صحافی ہیں یا پھر یہ اگر بلیک میلر ہیں تو آپ ان کے خلاف قانون کارروائی کر لیں‘ آپ تحقیقات کر لیں‘ ان کو گالی دینے کی کیا ضرورت ہے؟دوسرا اگر یہ بھی صحافی نہیں ہیں تو پھر ملک میں صحافی ہے کون؟ آپ صحافیوں کو عبرت کی نشانی کیوں بنانا چاہتے ہیں‘ آپ کیوں چاہتے ہیں ملک میں کوئی آزاد صحافی یا میڈیا پرسن نہ ہو؟
آپ آج بھی یونیورسٹیوں کے جرنلزم ڈیپارٹمنٹس میں جا کر پوچھ لیں یا پھر نوجوان میڈیا پرسنز سے سوال کر لیں یہ تمام حامد میر جیسا صحافی بننا چاہیں گے لیکن ساتھ ہی انھیں گالی بھی پڑ رہی ہے‘ کیوں‘ آخر کیوں؟ میں حیران ہوں میڈیا کے خلاف سوشل میڈیا کمپین کون چلاتا ہے اور ان کمپینز کا اس کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟ آپ کو فیس بک پر دس سال سے بحریہ ٹائون کے جعلی لیٹر ہیڈ پر صحافیوں کے پلاٹس اور اکائونٹس کی ایک رپورٹ بھی ملے گی‘ یہ رپورٹ ہر مہینے دو مہینے بعد سرکولیٹ ہونے لگتی ہے‘ رپورٹ میں میرا نام بھی شامل ہے۔رپورٹ میں لکھا ہے مجھے ملک ریاض نے دس مرلے کا مکان دیا تھا‘ میں نے ان سے کتاب لکھنے کے لیے پیسے بھی لیے تھے اور وہ پیسے اس بینک اکائونٹ میں جمع ہوئے‘ میرے نام کے سامنے ایک بینک اکائونٹ بھی لکھا ہوا ہے‘ میں ہزار مرتبہ کہہ چکا ہوں آپ پہلے یہ چیک کر لیں کیا ملک کے کسی بحریہ ٹائون میں میرا کوئی مکان ہے بھی یا نہیں؟ دوسرا ملک ریاض کی کتاب عبدالودود قرشی نے لکھی تھی‘ ان کا نام بھی کتاب پر چھپا ہوا ہے اور انھوں نے رائیلٹی کے لیے ملک ریاض کے خلاف عدالت میں درخواست بھی جمع کرا رکھی ہے‘ تیسرا آپ وہ بینک اکائونٹ بھی چیک کرلیں‘ آپ دیکھ لیں کیا وہ واقعی میرا اکائونٹ ہے یا اس میں کبھی دو چار لاکھ روپے بھی جمع ہوئے ہیں؟اس پوسٹ کی روشنی میں ایف بی آر 2013ء میں میرا باقاعدہ آڈٹ کر چکا ہے‘ ملک ریاض سے بھی پوچھا گیا تھا اور انھوں نے باقاعدہ لکھ کر دیا تھا یہ پوسٹ بھی جھوٹی ہے اور جاوید چوہدری پر الزام بھی‘ ملک ریاض کا وہ لیٹر اس وقت بھی ایف بی آر کے ریکارڈ میں لگا ہے‘ صحافی احتساب اور انکوائری کے لیے عدالتوں میں بھی پیش ہو چکے ہیں‘ حامد میر خود سپریم کورٹ گئے تھے اور عدالت سے درخواست کی تھی آپ حکومت کو حکم جاری کریں حکومتوں کے خفیہ اکائونٹس سے فائدہ اٹھانے والے میڈیا پرسنز کی فہرستیں جاری کر دے‘ ہم بار بار حکومتوں سے بھی کہہ چکے ہیں آپ خفیہ اکائونٹس کی تفصیلات شایع کر دیں۔
آپ قوم کو ان صحافیوں کے نام بتا دیں جو حکومتوں سے مراعات لیتے رہے ہیں یاجنھوں نے رقمیں لے کر جھوٹ لکھا یا بولا تھا لیکن آج تک کسی حکومت نے فہرستیں جاری کیں اور نہ کارروائی کی‘ملک میں آج عمران خان کی حکومت ہے‘ یہ ایمان دار اور جرات مند ہیں‘ یہ صحافیوں کی تمام مراعات اوررشوتوں کی تفصیلات شایع کر سکتے ہیں‘ ہم ان سے بھرپور مطالبہ کرتے ہیں حکومت احتساب کرے‘ فہرستیں جاری کرے لیکن صحافیوں کو گالیاں دینا بند کردے‘ کیوں؟ کیوں کہ آپ یہ بات پلے باندھ لیں جمہوریت اور آزاد معاشرہ دونوں آزاد صحافت کے بغیر مکمل نہیں ہوتے۔آپ تاریخ نکال کردیکھ لیجیے‘ دنیا کے جس ملک میں بھی آمریت آئی اس نے آنے سے پہلے آزاد میڈیا کا گلا گھونٹ دیا اور دنیا میں جس بھی جگہ ترقی ہوئی وہاں کا میڈیا خود مختار اور آزاد تھا چناں چہ آپ میڈیا کو بدنام اور گندا کرنے کے بعد معاشرے کو صاف اور شفاف نہیں رکھ سکیں گے‘ صحافت اور جمہوریت دونوں ساتھ ساتھ چلتی ہیں‘ یہ دونوں ہوتی ہیں یا پھر نہیں ہوتیں لہٰذا آپ فیصلہ کر لیں آپ کو کیسا معاشرہ چاہیے ؟آزاد یا غلام! اور پیچھے رہ گئی لیبارٹری تو ہم ان شاء اللہ اپنے اپنے اسٹوڈیوز میں یہ بھی بنا لیں گے تاکہ اگلی بار حکومت میاں نواز شریف کو’’جعلی رپورٹس‘‘ پر باہر نہ بھجوا سکے۔( بشکریہ ایکسپریس)۔۔