تحریر: مناظر علی۔۔
قصورحکومت کاہے یامیڈیا مالکان کا،اس سے ہرذی شعورواقف ہے مگریہ بات واضح ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت آتے ہی صحافیوں کیساتھ کچھ زیادہ ہی’انصاف‘ ہوگیاہے۔پہلے ہی واضح کردوں کہ صحافیوں سے میری مراد وہ صحافی نہیں جوکسی بھی طرح مالدارہیں،چاہےوہ خاندانی طورپرپہلے ہی امیر تھے،ذاتی کاروبارسے ہوئے،ملازمت سے ہوئے یا پھر دیگرذرائع سے؟یہ کہانی الگ ہے۔
میری مراد ورکنگ جرنلسٹس ہیں جو نیوزروم سے کسی نہ کسی طرح وابستہ ہیں،کم وبیش90فیصد کارکن وہ ہیں جومختلف ادوار میں ہمیشہ بحرانوں کا شکار ہوئے ہیں کیوں کہ ان کی دال روٹی صرف ان کی تنخواہوں سے چلتی ہے۔ان میں اخبارات کے ملازمین نیوزایڈیٹرز، سب ایڈیٹرز، کمپوزر،پیج میکرز،رپورٹرز،فوٹوگرافرز،ڈیزائنرز،پرنٹنگ مشین آپریٹرز،اخبارفروش اور اسی طرح ٹی وی چینلز میں پروڈیوسرز،کاپی ایڈیٹرز،اسائنمنٹ ایڈیٹرز، نیوزاینکرز ، ٹکرزآپریٹرز،رپورٹرز،کیمرہ مین،این ایل ایز، ٹیکنیکل سٹاف،آئی ٹی سٹاف اوردیگرمختلف شعبہ جات کاسٹاف شامل ہے۔
میں نے تقریباہرشعبے کے عہدوں کے حساب سے اس وجہ سے نام لیے ہیں جب صحافیوں کا ذکر ہو تولوگ صرف چند بڑے اینکرزہی کو صحافی سمجھتے ہیں اور اگر کہیں کسی نے ناجائز ذرائع سے کوئی مال بنایا ہے تو پھر سبھی کو اس نظر سے دیکھاجاتاہے،رپورٹرزاور نیوز اینکرزکے علاوہ اوپر ذکر کیے گئے لوگ ایسے ہیں جو اخبارات پر شائع نہیں ہوتے،ٹی وی سکرین پر نظر نہیں آتے مگر روزانہ دفتر میں آتے ہیں اور اپنی کرسی پر بیٹھ کر آٹھ گھنٹے ڈیوٹی کرتے ہیں،زردصحافت کیا چیز ہے؟کرپشن کس بلا کا نام ہے؟ناجائز ذرائع سے دولت کیسے کمائی جاتی ہے؟ان بے چاروں نے کبھی دور سے بھی ایسا ایک روپیہ تک نہیں دیکھاہوتا۔
یہ ایک سسٹم کے تحت کام کرتے ہیں اور کسی بھی اچھے ادارےکےسسٹم میں یہ شامل نہیں کہ ادارے کو کرپشن کےپیسوں سےچلاناہے،مالی معاملات کےلیےالگ سےڈیپارٹمنٹ ہوتےہیں جنہوں نے اشتہارات کی مد میں مختلف کمپنیوں سے رقوم وصول کرناہوتی ہیں اور اس کے بدلے متعلقہ کمپنی کے اشتہارات شائع یا نشر کرناہوتے ہیں۔نیوزروم کے لوگ تنخواہ پر گزارہ کرنے والے لوگ ہیں،عموما اپنا کھانا بھی گھر سے لاتےہیں،البتہ ایک دو اچھے اداروں میں تین وقت کا کھانا اور چائے انہیں دفتر سے ہی دی جاتی ہے۔ان میں سے بے شمار لوگ پانچ وقت کے نمازی ہیں اور عام لوگوں کی طرح یہ بھی حلال روزی کی طلب اور حرام سے بچنے کی دعا کرتے ہیں۔
ایک بات واضح ہے کہ حکومتیں جب جب میڈیاکو کنٹرول کرنے کی باتیں یااقدامات کرتی ہے تومیڈیاہاؤسز کے مالکان کو کچھ زیادہ فرق نہیں پڑتا،در اصل یہ سارا نزلہ ہرطرف سے میڈیا ملازمین پر گرتاہے،عام لوگوں کی طرح ایک طرف انہیں مہنگائی کے جن کا سامناہوتاہے تو دوسری طرف حکومتی اقدامات کے نتیجے میں پیداہونے والے مالی بحران کا،میڈیا ورکرزایسی صورتحال میں کسی گنے کی طرح بیلنے میں پھنس جاتاہےیایوں سمجھیں کہ اس کا ہاتھ چکی کے بالکل درمیان آجاتاہے،ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر ان بے چاروں کے بارے میں فیصلے کرنے والے نجانے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ان کے ان فیصلوں سے کتنے لاکھ لوگوں کی نوکریاں داؤ پر لگ جاتی ہیں؟کتنے ہزار خاندان بری طرح متاثر ہوتے ہیں؟کتنے صحافیوں کے بچوں کی معصوم خواہشات ان اقدامات کی نذرہوجاتی ہیں؟میں ذاتی طورپر کئی ایسے لوگوں کو جانتاہوں جن صحافیوں کاتعلق نیوز روم سے تھا،ان کی بنی خبروں میں جان ہوتی تھی اور آج وہ اپنی جان بچانے کیلئے دوائی تک نہیں خریدسکتے کیوں کہ بیروزگاری کی مصیبت ایسی آئی جو ابھی تک نہیں گئی۔
مجھے ماہ مقدس کا وہ دن نہیں بھولےگاجب ایک صحافی نےمجھے کال کی’آج میرے گھرمیں روٹی پکانے کیلئے آٹانہیں‘۔۔یہ الفاظ میرے دل پر کسی نشتر کی طرح چلے اور جوہوسکتاتھا،وہ کیا،مگر وہ راشن کتنے دن اس صحافی کے بچوں کا پیٹ پالے گا؟ممکن ہے اب تک ختم ہوچکاہو۔اس ساری صورتحال کے باوجوداب ایک نئی ٹینشن شروع ہوچکی ہےجسے اب تک تمام صحافی تو جان چکے ہیں مگرشاید عام لوگوں کو اس کاعلم نہ ہو۔حکومت نے ذرائع ابلاغ کے لیے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام سے مجوزہ قانون کا ڈرافت تیار کر لیا ہے جسے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نافذ کیا جائے گا،اب چاہے اخبارہویاٹی وی چینلزاورچاہے ڈیجٹیل میڈیا۔۔۔سب اس اتھارٹی کے قوانین کے مطابق کام کریں گے،حالانکہ میڈیاہاؤسزپہلے بھی شتربے مہارنہیں ہیں،ان پر چیک اینڈ بیلنس ہے اور خلاف ورزیوں پر انہیں جرمانےاوربندش کاسامناکرناپڑتاہے،کوئی ایساادارہ نہیں جوحکومت کی مرضی کےخلاف کام کرسکے۔
کہاجارہاہے کہ یہ اتھارٹی میڈیا مالکان کو ’نتھ‘ڈالنے کیلئے وجود میں آرہی ہےمگر مجھے معذرت کے ساتھ کہناپڑ رہاہے کہ جناب یہ ’نتھ‘آپ ڈالنا چاہے میڈیا مالکان کو رہے ہیں مگر پہلے کی طرح اس کا سارا ملبہ ان ملازمین پر یقینی طورپر گرے گا جن کا میں اوپر ذکرکرچکاہوں،مجوزہ اتھارٹی کے بنائے گئے قوانین صحافیوں کی نمائندہ تنظیمیں مستردکرچکی ہیں کیوں کہ وہ بے خبر نہیں،انہیں یہ معلوم ہے کہ اس کا اثر کس پر پڑے گا؟؟؟۔
مجھے خدشہ ہے کہ اگر یہ اتھارٹی باقاعدہ طورپرفعال ہوگئی تومیڈیاورکرزکے لیے انتہائی مشکل وقت شروع ہونے والا ہے،نہ صرف یہ بلکہ اگرآپ مجوز آرڈیننس کو دیکھیں تو اس کے ڈرافٹ میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی آن لائن اخبار، ویب ٹی وی چینل، آن لائن نیوز چینل، کسی بھی قسم کا ویڈیو لاگ، یو ٹیوب چینل، حتیٰ کہ نیٹ فلکس اور ایمازون پرائم بھی ڈیجیٹل میڈیا کا حصہ ہیں، جن کے لیے لائسنس لینا ضروری ہوگا۔
اس کے بعد مجھے میاں چنوں کا معذور حافظ قرآن علی حفیظ یاد آرہاہے جو سوشل میڈیا سے ماہانہ 80ہزار روپے کماکر اپنا اور خاندان کا پیٹ پالتاہے،اس جیسے ہزاروں لوگ ڈیجٹیل میڈیا کی بدولت باعزت روزگار کماتے ہیں ،اگر انہیں لائسنس کے چکر میں ڈال دیاگیاتو پھر ایک دفعہ پھر پیسے والے جیت جائیں گے اور ان جیسے ہزاروں لوگ بھیک مانگنے پرمجبورہوجائیں گے۔ملازمین چاہے اخبار کے ہوں یا ٹی وی کے،وہ فیس بک سے پیسے کماتے ہوں یا یوٹیوب سے،مجوزہ اتھارٹی فعال ہونے کے بعدانہیں سنگین مالی بحران کاخدشہ ہے لہذاحکومت کو اس معاملے میں نظرثانی کی ضرورت ہے تاکہ لاکھوں لوگ پریشانی سے بچ سکیں،یہ الگ بات ہے کہ آپ نے بے شمار وعدوں میں ایک وعدہ نوکریوں کابھی کیاتھا،کوئی بات نہیں،ہر وعدہ کہاں پورا ہوتا ہے؟ ۔اور کچھ نہیں تو دال روٹی کمانے والوں کواس حق سے بھی محروم نہ کریں،ریاست مدینہ میں کسی ایسے اقدام کاتصور نہیں ملتا۔(بشکریہ ڈیلی پاکستان)۔۔