media authority ke khilaaf media biradari muttahed

میڈیا اتھارٹی کے خلاف میڈیا برادری متحد

تحریر: اظہر عباس۔۔

نیا کالا قانون نافذ کرکے صحافیوں پر زیادہ پابندیاں عائد کرتے ہوئے وزارت اطلاعات نے پُر فریب چال چلی ہے اور یہ ملک کو جنرل ضیاء الحق کی فوجی آمریت کے دور میں واپس لیجائے گا۔ یا شاید اس سے بھی بد تر دور میں۔ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کے قیام کا مقصد نجی میڈیا پر زیادہ کنٹرول نافذ کرنے اور سوشل میڈیا پر آزاد آواز کو دبانے کی کوشش ہے۔ تقریباً تمام صحافیوں اور میڈیا تنظیموں نے اس قانون کو مسترد کر دیا ہے اور اسے میڈیا کو خاموش کرنے کی سخت ترین کوشش قرار دیا ہے۔ لیکن حکومت اپنی کوششوں کے حوالے سے پرعزم نظر آتی ہے کہ اس قانون کو پارلیمنٹ سے منظور کر الیا جائے۔ اور شاید یہ لوگ جلد بازی میں ہیں کہ جیسے انہیں یہ کام کرنے کیلئے کوئی ڈیڈلائن دی گئی ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران قومی اہمیت کے حامل معاملات پر مذاکرات اور بحث و مباحثے کرانے کے معاملے میں صحافیوں کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لیکن گزشتہ چند سال میڈیا کیلئے بدترین وقت ثابت ہوئے ہیں کیونکہ ان میں بڑھتی پابندیاں اور دھونس دھمکی جیسے واقعات پیش آئے۔ ان سب کے باوجود، ایسا لگتا ہے کہ میڈیا کو کنٹرول کرنے کے اقدامات ناکافی تھے اور اس کا گلا گھونٹنے کیلئے مزید کچھ کرنے کی ضرورت تھی تاکہ ملک میں جکڑ بند میڈیا لایا جا سکے جو ملکی قیادت کی آراء ا ور نظریات کو رٹو طوطے کی طرح پیش کرتا رہے۔ اکثریت کیلئے قابل قبول قومی بیانیہ سامنے لانے کیلئے ضروری ہے کہ کھل کر مفصل انداز سے تنقیدی بحث و مباحثہ کرایا جائے۔ توازن برقرار رکھنے کیلئے تنقیدی آراء ضروری ہیں۔ ہماری قومی قیادت کو تشویش ہے کہ ملک میں منفی انٹرنیشنل میڈیا کو فروغ مل رہا ہے خصوصاً افغانستان جیسے معاملات پر۔ اگرچہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ مقامی صحافی اور تجزیہ نگار اس منفی کوریج کا توڑ نکالیں لیکن وہ ملک میں صحافت کیلئے کم پابندیوں کا حامل ماحول فراہم کرنے کو تیار نہیں۔ صرف آزاد میڈیا ہی اختلاف رائے پر مبنی خیالات اور ایسے تجزیہ کار پیش کر سکتا ہے جنہیں مقامی اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جاتا ہو۔ اس بات کا اطلاق بھارت پر بھی ہوتا ہے جہاں مودی کی ظالمانہ حکومت نے میڈیا پر بے مثال پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ سچ سامنے لانے کی کوششیں کرنے والے صحافیوں کو دھونس اور دھمکیوں کے ذریعے بد ترین اقدامات سے سیدھا کیا جاتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ یہ وہی ’’اچھوت‘‘ صحافی اور مبصرین ہی ہوتے ہیں جنہیں بین الاقوامی سطح پر قبولیت حاصل ہے نہ کہ ریاستی بیانیے کو رٹو طوطے کی طرح پڑھنے والوں کو۔ پاکستانی صحافی مقامی اور خارجہ پالیسی کے ایسے معاملات پر عوامی سطح پر قومی مباحثہ کرانے کیلئے کوششیں کر رہے ہیں جو ملک کے مستقبل کیلئے خطرناک ہیں۔ لیکن جب بھی ملک کے دانشور طبقے بشمول میڈیا کے مرکزی دھارے کو سرکاری بیانیے کو چیلنج کرنے کا موقع اور وقت ملا ہے، انہیں اِدھر اُدھر پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے۔ اختلاف رائے رکھنے والوں کو خاموش کرا دیا جاتا ہے یا پھر دھونس دھمکی اور دبائو کے ذریعے میڈیا کے مرکزی دھارے سے علیحدہ کرا دیا جاتا ہے۔ اگرچہ موجودہ قومی قیادت ماضی کے بیانیے پر تنقید میں خوشی محسوس کرتی ہے اور آج کی غلطیوں کیلئے ماضی کی کوتاہ نظری پر مبنی پالیسیوں کو قصور وار سمجھتی ہے لیکن اب بھی وہ موجودہ پالیسیوں کی تشکیل اور قومی بیانیہ تیار کرنے کے معاملے میں کھلی بحث کرانے سے ہچچکا رہی ہے یا پھر کبھی کبھار ڈرتی بھی ہے۔ درحقیقت پی ایم ڈی اے اس بچی کچھی آزادی کو بھی صلب کرنے کی کوشش ہے جو قومی مباحثہ کرانے کیلئے باقی رہ گئی ہے۔ لگتا ہے کہ پہلے سے ہی یہ سوچ کر طے کر لیا گیا ہے کہ اختلاف رائے رکھنے والوں کو خاموش کرا دیا جائے اور صرف تعبیدار میڈیا کو کام کی اجازت دی جائے۔ اگر میڈیا کو دبانے کیلئے نگران ادارے پیمرا کو استعما ل کرنا ناکافی تھا تو حکومت اب چاہتی ہے کہ تمام میڈیا ریگولیٹری اداروں کو ایک ہی چھتری تلے جمع کیا جائے۔ حکومت یہ بھی چاہتی ہے کہ سوشل میڈیا پر آزاد آراء پر پابندی عائد کی جائے اور اس مقصد کیلئے ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز کی نگرانی کی بات بھی کی جا رہی ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ کوئی حکومت ڈیجیٹل پلیٹ فارمز استعمال کرنے والے لاکھوں لوگوں کو اپنی رائے کے اظہار کیلئے لائسنس دے سکتی ہے اور ایک شخص کی نگرانی باقاعدگی سے کرنے کی تو بات ہی دور رہی۔ یقیناً ہدف اختلاف رائے رکھنے والی ایسی آوازیں ہیں جو نام نہاد قومی بیانیے کو فروغ دینے کو تیار نہیں۔ میڈیا اداروں اور وزارت اطلاعات کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں وزیر مملکت فرخ حبیب نے شرکا سے کہا کہ نئے پی ایم ڈی اے کے تحت زیادہ سے زیادہ جرمانے ڈھائی کروڑ روپے ہے اور میڈیا سے کہا کہ یقین کریں کہ یہ جرمانہ عائد نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ پی ایم ڈی اے دیگر نگران اداروں کے مقابلے میں زیادہ آزاد ہوگا۔ لیکن فرخ حبیب کی یقین دہانیاں اور اعتماد کی باتوں کو ہوا ہونے میں بس چند دن ہی لگے۔ اس اجلاس کے حوالے سے وزارت کی جانب سے جو نکات جاری کیے گئے وہ واضح طور پر زیر بحث آنے والے معاملات سے متضاد تھے۔ میڈیا تنظیموں نے پی ایم ڈی اے کو مسترد کیا۔ میڈیا تنظیموں کی مشترکہ تنظیم نے اجلاس کے نکات کو مسترد کرنے کیلئے بیان جاری کرنا پڑا۔ کیا ہوا اس بھروسے کا جس کی باتیں وزیر صاحب کر رہے تھے! بظاہر دھوکا دہی پر مشتمل ایسی کوششیں اسلئے کی گئیں تھیں کہ سب کو دکھایا جا سکے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز متحد و متفق ہیں۔ اسی دوران وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ پی ایم ڈی اے کا ایک مقصد میڈیا ورکرز کے حقوق کا تحفظ بھی ہے جس میں ملازمت، تنخواہ اور مراعات کا تحفظ بھی شامل ہے۔ لیکن اگر حکومت صحافی کا سب سے بڑا حق یعنی اظہار کی آزادی ہی چھین لے تو باقی حقوق کا تحفظ ہو پائے گا؟ درحقیقت، جس طرح گزشتہ چند برسوں کے دوران میڈیا کا گلا گھونٹا گیا ہے اس سے کئی صحافی بیروزگار ہوئے ہیں جبکہ کئی لوگوں کی تنخواہوں میں کٹوتی بھی ہوئی ہے۔ ملک کی قومی قیادت نے بارہا کہا ہے کہ وہ مضبوط اور ترقی یافتہ پاکستان چاہتی ہے۔ یہ واضح طور پر خوفناک کام ہے اور اسے کرنے کیلئے ضروری ہے کہ لوگوں کے ذہن، سوچ اور رویوں میں نمایاں تبدیلی لائی جائے، اور یہ آزاد اور متحرک میڈیا کے بغیر ممکن نہیں۔ پاکستان یوم آزادی کے دن مینار پاکستان پر پیش آنے والے واقعات کو چھپا کر ترقی نہیں کر پائے گا۔ ملک صرف اسی صورت ترقی کرے گا جب ہم ایسے بھیانک واقعات کو سامنے لائیں گے، یہ معلوم کریں گے کہ کیا اور کہاں غلط ہوا اور لوگوں کے رویے اور یہ دیکھیں کہ لوگوں کی سوچ کیسے بدلی جا سکتی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ایسے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔ یہ واضح نہیں کہ وزیراعظم کو کس طرح اور کس حد تک ان کی وزارت اطلاعات نے پی ڈی ایم اے کے قیام کے حوالے سے میڈیا تنظیموں کی ناراضی سے آگاہ کیا گیا ہے۔ ایک طویل عرصے بعد پوری میڈیا برادری اس واحد معاملے پر متحد ہے اور یک آواز ہو کر کہتی ہے: ’’نہیں وزیراعظم صاحب، بالکل نہیں (ایبسولیوٹیلی ناٹ)۔۔(بشکریہ جنگ)۔۔

How to write on Imranjunior website
How to write on Imranjunior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں