تحریر: مظہرعباس۔۔
نہ صرف پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش سے بلکہ جس طرح سے حکومت خود یا کسی اور دبائو کے تحت میڈیا کا گلا گھونٹنا چاہتی ہے،حکومت پریس تعلقات کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ حکومت نے اپنے مقاصد یا ہدف حاصل کرنے کیلئے جس طرح سے میڈیا ورکرز کو تقسیم کرنے یا پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی، اس سے مجھے فیلڈ مارشل ایوب خاں اور جنرل ضیاء الحق کا زمانہ یاد آ گیا۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری کی ان کے خیالات کی وجہ سے ہمیشہ عزت کی جاتی رہی ہے۔ اب ایسا کیا ہواہے کہ ان جیسا آدمی بھی مایوس ہو کر پرانے حربے استعمال کر رہا ہے۔ شاید یہ وزارت کے افسروں کی شہ پر ہو۔ پاکستان کے اوائل سے ہی ہمارے سیاست دانوں کی خواہش رہی ہے کہ وہ فوجی آمروں کی طرح مطلق العنان بن کر حکومت کریں۔ انہوں نے ریاست کے دو ستونوں عدلیہ اور صحافت کو ہدف بنایا، کیونکہ وہ دونوں اپنے اپنے طریقے سے ان کے طور طریقوں پر سوال اٹھاتے ہیں۔ چہرے بدلتے رہے لیکن یہ سوچ نہیں بدلی۔ اس ملک میں میڈیا قوانین بھی بالعموم میڈیا کے تحفظ کی بجائے اسے دبانے کیلئے بنائے جاتے رہے۔ تنقید اور اختلاف کرنے پر اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا نے سخت قوانین کا سامنا کیا، انہیں بند کیا گیا، اشاعت معطل کی گئی یا آف ایئر کیا گیا۔ اس وقت بھی دبائو کی وجہ سے بعض ممتاز اینکر آف ایئر ہیں اور انکے کالم بند ہیں، جبری گمشدگی، غیر قانونی حراست اور ہراسانی کے معاملات بھی بڑھ گئے ہیں۔ پاکستان اس وقت صحافیوں کیلئے خطرناک ترین پانچ ملکوں میں سے ایک ہے۔ ٹارگٹ کلنگ کی صورت میں یا حقوق کیلئے میڈیا ملازمین یا ان کے خاندانوں کو عدالتوں سے کم ہی انصاف ملتا ہے۔ سیاست دان اقتدار میں ہوتے ہیں تو وہ اختلافی اور تنقیدی آوازوں کو پسند نہیں کرتے اور میڈیا کو دبانے کیلئے قانون لاتے ہیں اور صحافیوں کو مختلف طریقوں سے ہراساں کرتے ہیں اور جب اپوزیشن میں ہوں تو آزادی صحافت کی جدوجہد میں شامل ہو جاتے ہیں اور صحافیوں کی تنظیموں کے مطالبات کی حمایت کرتے ہیں۔ تاریخ دیکھیں تو آپکو پتہ چلے گا کہ اپوزیشن میں وہ جن میڈیا قوانین کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، اپنے دور اقتدار میں خود ان کا استعمال کرتے رہے ہیں۔ پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس 1960 اور پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 (پیکا) اس کی کلاسک مثالیں ہیں۔ ایک صحافت کو کنٹرول اور ریگولیٹ کرنے کیلئے تھا اور دوسرا سوشل میڈیا پر نظر رکھنے کیلئے۔ ذوالفقار علی بھٹو جب اپوزیشن میں تھے تو پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس ختم کرنے اور نیشنل پریس ٹرسٹ کو توڑنے کا مطالبہ کرتے تھے لیکن اقتدار میں آ کر دونوں کو برقرار رکھا۔ اب پیکا کی مثال دیکھیں۔ پی ٹی آئی سمیت اپوزیشن نے اس کی مخالفت کی تھی اور خدشہ ظاہر کیا تھا کہ یہ مخالفین کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔ اب وہ خود اسے اختلاف کرنے والوں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خاں کی حکومت آزادی صحافت سمیت بہت سے وعدوں کے ساتھ آئی۔ گزشتہ تین سال میں سب کچھ ان دعووں کے برعکس ہے۔ وزارت اطلاعات، پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کے بارے میں آج ان کے جو خیالات ہیں وہ اپوزیشن کے لیڈر کے طور پر ان کے خیالات کے برعکس ہیں۔ پی ایم ڈی اے میڈیا کے بارے میں کڑے قوانین میں ایک اور کا اضافہ ہو گا۔ یقین مانیں ان کی تعداد پچاس سے زیادہ ہے۔ ان میں سے بیشتر اب بھی برقرار اور نافذ ہیں۔آخر میڈیا کے تمام سٹیک ہولڈرز اس قانون کے مخالف کیوں ہیں اور وزیر اطلاعات کیوں اس پر تلے ہوئے ہیں حالانکہ ویسے وہ کافی لبرل اور سیکولر ذہن کے آدمی ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ اگر حکومت کو واقعی جھوٹی خبروں کے مذموم سلسلے پر تشویش ہے تو وہ پریس کونسل آف پاکستان (پی سی پی) اور پاکستان الیکٹراک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کو کیوں ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہتک عزت کا قانون 2002اور پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016بھی موجود ہیں۔ اس لئے ان تمام قوانین کو ختم کرکے ایک ہی نیا قانون لانے کی کیا ضرورت ہے؟ انہیں بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اگر ان پر عمل نہیں ہو سکتا تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ پی ڈی ایم اے موثر ہوگی۔ وفاقی وزیر اطلاعات میڈیا کارکنوں کو تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر، برطرفیوں اور لیبر لاز کے سلسلے میں ریلیف دینے کے خواہشمند ہیں۔ یہ خوش آئند ہے لیکن اس کے لئے بھی پی ڈی ایم اے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ حکومت کو صرف لیبر لاز پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے پہلا قدم نیوز پیپرز ایمپلائز (کنڈیشن آف سروس) ایکٹ 1973ء اور میڈیا ایمپلائز (کنڈیشن آف سروس) ایکٹ میں ترامیم کرنا ہوں گی تاکہ الیکٹرانک میڈیا کے ملازمین بھی کور ہو جائیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ فواد چودھری نے کہا کہ ٹربیونلز میں ہزاروں کیس زیرالتوا ہیں ،وہ بالکل غلط نہیں ہیں لیکن اس کے لئے وہ چاروں صوبوں میں چار امپلی منٹیشن ٹربیونل بنائیں۔(بشکریہ جنگ)۔۔