تحریر: جاوید صدیقی۔۔
کراچی پریس کلب میں یوں تو صحافیوں کی گہما گہمی جاری رہتی ھے مگر آج کل موجودہ وفاقی حکومت کی جانب سے صحافت اور صحافیوں کی آزادی پر مجرمانہ حملوں کے سبب ملک بھر کے صحافی صحافت کو بچانے کیلئے متحد ھوگئے ہیں۔ بانی و چیرمین کراچی یونین آف جرنلسٹس دستور گروپ ڈاکٹر عبدالجبار صاحب، ڈپٹی چیرمین کراچی یونین آف جرنلسٹس دستور گروپ محمود ناصر صاحب، ڈپٹی چیرمین کراچی یونین آف جرنلسٹس دستور گروپ عارف خان صاحب اور میں جاوید صدیقی ایگزیکٹو ممبر کراچی یونین آف جرنلسٹس دستور گروپ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مجوزہ قانون کو صحافت اور صحافیوں کیلئے ایک جانب گہرا زندان سمجھتے ہیں تو دوسری جانب اس قانون کو خلافِ انصاف، خلافِ پروفیشنل، خلافِ عدل اور خلافِ ریاست سمجھتے ہیں۔ عارف خان نے گفتگو کرتے ھوئے بتایا کہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مجوزہ قانون کا اگر جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ موجودہ حکومت اس نئے قانون کے ذریعے میڈیا سے متعلق پہلے سے رائج پانچ قوانین کو ختم کرکے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو ایک ہی قانون کے تحت کرنا چاہتی ہے تاکہ ہر قسم کے میڈیا کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جاسکے۔ آپ جانتے ہیں کہ ذرائع ابلاغ کا پہلا ذریعہ اخبار بدترین زبوں حالی کا شکار ہے۔ دوسرا ذریعہ ریڈیو ٹی وی بھی بتدریج زبوں حالی کی طرف گامزن ہیں سینما کا ذریعہ پہلے ہی دم توڑ چکا ہے۔ ذرائع ابلاغ کا تیسرا سب سے بڑا تیز ترین و مؤثر ذریعہ اس وقت انٹر نیٹ ہے پاکستان میں اس وقت ایک اندازے کے مطابق آٹھ کروڑ سے زائد افراد انٹرنیٹ کا استعمال کررہے ہیں۔ پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں میں سے تقریباً سات کروڑ افراد ڈیٹا نیٹ استعمال کرتے ہیں جس سے سالانہ تقریباً تقریباً تین سو ارب روپے سے زائد کا کاروبار ہورہا ہے۔ موجودہ دور حکومت میں بےروزگاری کی سونامی نے سینکڑوں صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو بھی بیروزگار کیا۔ بے روزگار ہونے والے صحافی اور میڈیا ورکرز سوشل میڈیا کی ٹیکنالوجی سے اچھی طرح واقف اور خبر کا شعور رکھتے ہیں۔ بے روزگار نوجوان صحافیوں اور میڈیا ورکرز کی بڑی تعداد نے سوشل میڈیا کا رخ کیا اور اس کو ذریعہ معاش بنایا۔ سوشل میڈیا زیادہ دیکھے جانے کی باعث اشتہارات کا رخ بھی اس جانب ہوگیا جس سے روائتی میڈیا اور اس کے مالکان کو دھچکا لگا جس کو بنیاد بنا کر میڈیا مالکان نے صحافیوں اور میڈیا ورکرز کا معاشی قتل عام کیا۔ پی ایم ڈے اے کے مجوزہ قانون سے متعلق میڈیا مالکان نے بظاہر ایسا رویہ اختیار کر رکھا ہے کہ کہ وہ اس قانون کے خلاف ہیں اور اسے آزادی اظہار رائے پر قدغن قرار دیکر صحافیوں اور انکی تنظیموں کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ اس قانون کے ذریعے میڈیا مالکان سوشل میڈیا کا سالانہ تین سو ارب روپے سے زائد کا کاروبار اپنی طرف کھینچنا چاہتے ہیں اور حکومت آزاد سوشل میڈیا کا گلا دبوچنا چاہتی اسطرح میڈیا مالکان اور حکومت کا گٹھ جوڑ سازشی انداز میں ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی پی ایم ڈی اے کے مجوزہ قانون کیمطابق کوئی بھی ڈیجیٹل میڈیا پر بلا اجازت خبر، نیوز پروگرام بذریعہ آڈیو ویڈیو یا ٹیکسٹ میسیج شائع یا نشر نہیں کر سکے گا اس کی روک تھام کیلئے حکومت پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کو کنٹرول کرنے کیلئے تین ڈائریکٹوریٹ بنائے گی جس کا چیئرمین وزارت اطلاعات و نشریات سے تعلق رکھنے والا گریڈ بیس یا اکیس کا بیوروکریٹ ہوگا اس کے بارہ ممبران بھی ہونگے۔ مذکورہ ڈائریکٹوریٹ کے تحت میڈیا کمپلین کونسلز ہونگی۔کونسلز کو سول کورٹ کے اختیارات حاصل ہونگے۔کونسلز حکومت یا کسی بھی شخص کی شکایت پر کاروائی کرے گی جرم ثابت ہونے پر کم سے کم تین زیادہ سے زیادہ پانچ سال قید کی سزا اور ڈھائی سے پانچ کروڑ روپے تک جرمانہ ہوگا۔ اپیل کیلئے ہائی کورٹ کے حاضر سروس یا ریٹائر جج یا جج بننے کا اہل وکیل اور نو ممبران پر مشتمل میڈیا ٹریبونل بنایا جائیگا۔ میڈیا ٹریبونل پرنٹ الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کے ملازمین کی تنخواہوں اور دیگر معاملات کا جائزہ لے گا تاہم ویجز ایکٹ ختم نہیں ہوگا۔ معزز قارئین!! عارف خان کی گفتگو سے یہ بات واضع ھوجاتی ھے کہ حکومتِ وقت اور وزارت نشر و اشاعت نے صحافت اور صحافیوں کیلئے کسی طور تحفظات کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا اس قانون میں حکومت اور میڈیا مالکان کے بے جا اور تمام ظالمانہ رویئوں کو نہ صرف تحفظ بخشا گیا ھے بلکہ انہیں قانون میں نرمی اور من مانیوں کی راہ ہموار کیں ہیں۔ میں نے اپنے چیرمین ڈاکٹر عبدالجبار صاحب ڈپٹی چیرمین محمود ناصر صاحب اور ڈپٹی چیرمین عارف خان صاحب کو توجہ دلایا کہ تین سال ھوئے چاہتے ہیں میڈیا چینلز نے جھوٹ پر منحصر خسارہ ظاہر کرتے ہوئے ڈاؤن سائزنگ کے نام پر پاکستان بھر سے ہزاروں صحافی بشمول میڈیا پرسن کا معاشی قتل کیا گیا مگر آج تک نہ حکومت نے اس بابت جواب طلبی کی اور نہ ہی سپریم کورٹ نے اس بابت از خود نوٹس لیا سب سے بڑھ کر حیرت کی بات یہ ھے کہ یوجیز ہوں یا کلبس کے عہدیداران یہ سب ڈاؤن سائزنگ سے محفوظ رہے تحقیق سے معلوم ھوا کہ کٹیر تعداد صحافتی تنظیم کے عہدیداران میڈیا مالکان کے سہولتکار نکلے گویا صحافت کو کہیں بازاری بنادیا ھے تو کہیں زرد آلود کردیا صحافتی ایوانوں میں اپنے کارندے برجمان کردیئے ہیں آج ھم اسی لیئے کہتے ہیں ھم صحافی ہیں غیر سیاسی اور غیر جماعتی یعنی صحافی سیاست اور کسی بھی جماعت سے تعلق نہیں رکھتا صحافی اپنے فیصلے خود صحافیوں کے مشاورت سے کرتا ھے۔۔۔(جاوید صدیقی)۔۔