alu timatar lelo sahafi lelo

میڈیا اتھارٹی بل اور کارکنوں کا قتل۔۔

تحریر: محمد نواز طاہر۔۔

ان دنوں حکومت کی طرف سے ایک آرڈننس کے ذریعے بنائی جانے والی ”میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی زیرِ بحث ہے جس پر میڈیا کارکنوں اور میڈیامالکان نے شدید ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے یکسر مسترد کردیا ہے ۔ بنیادی طور پر حکومت کے علاوہ دو میڈیا کارکن اور میڈیا مالکان ہیں ۔ میڈیا کارکنوں کے بھی دو حے ہیں ایک پرنٹ میڈیا اور دوسرا الیکٹرانک میڈیا ، تیسرا پارٹ ڈیجیٹل میڈیا بھی اب اس کا حصہ بن گیا ہے۔ ان میں سے پرنٹ  میڈیا  کے لئے اخباری کارکنوں کی طویل جدوجہد کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پیپلز پارٹی کے حکومت نے انیس سوتہتر میں نیوزپیپرز یمپلائیز کنڈیشز آف سروس ایکٹ بنایا جس کے تحت طے کیا گیا کہ اخباری کارکنوں کی ماہانہ اجرت اور دیگر مالی استحقاقات کے کا تعین کرنے کے لئے سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کے حاضر سورس یا ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں ایک ویج بورڈ بنایا جائے گا ، جس میں ، اخباری مالکان اور کارکنان کی نمائندگی ہوگی ، یہ بورڈ آئندہ پانچ سال کے لئے جو اجرت اور الاﺅنس طے کرے گا ،کارکنان اس کے حقدار ہونگے اور اگر کوئی اخباری مالک طے کردہ ایوارڈ کے مطابق ادائیگی نہیں کرے گا تو اس پر عملدرآمد کروانے کے لئے سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ جج یا پھر جج بننے کی اہلیت رکھنے والے قانون دان کو عملدرآمد ٹربیونل( آئی ٹی این ای )کا چیئرمین مقرر کرے گی۔ یہ پریکٹس  انیس سو تہتر سے لیکر میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے آرڈننس کے اجرا تک جاری رہی لیکن اب حکومت اتھارٹی بنادی اور (آئی ٹی این ای ) کا چیئرمین مقرر نہیں کیا جبکہ ملک بھر کے اخباری کارکنوں کے مقدمات زیر التوا ہیں ۔

 دوسرا حصہ الیکٹرانک میڈیا کے کارکنوں کا جن کے لئے   اخباری کارکنوں کے طرز پر ملازمت اور اجرت کا تحفظ فراہم کرنے کے لئے کوئی قاعدہ ضابطہ نہیں بنایاگیا۔۔ ڈیجیٹل میڈیا ابھی نوعمری میں ہے جبکہ بہت سے ادارے معرضِ وجود میں آچکے ہیں جہاں تربیت یافتہ اور غیر تربیت یافتہ کارکنان کام کررہے ہیں ، ان کارکنوں کے معاشی حقوق کے تحفظ کے لئے بھی کوئی قاعدہ ضابطہ نہیں ہے ۔ اخباری کارکنوں کے لئے بنائے جانے والے نیوز پیپرز ایمپلائیز ایکٹ کو ختم کروانے کے لئے بھی اخباری مالکان نے سرتوڑ کوشش کی یہاں تک کہ ویج ایوارڈ کے ساتھ اس ایکٹ کو بھی چیلنج کیا گیا لیکن ملک کی سپریم کورٹ نے اس ایکٹ کا تحفظ کیا ، اخباری مالکان نے ہر دور میں اس ایکٹ کو ختم کروانے کے لئے حکومت پر دباﺅ ڈالا لیکن ناکام رہی البتہ میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے آرڈیننس میں  اخباری مالکان کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے یہ قانون ختم کردیا گیا حالانکہ اسمبلی سے منظور کیا جانے والا ایک آرڈننس کے ذریعے ختم کرنے قانون کی نظر میں مضحکہ خیز عمل دکھائی دیتا ہے ، اسمبلی سے منظور کیے جانے والے قانون کو اسمبلی ہی تبدیل یا منسوخ کرسکتی ہے۔

 میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام کے بعد جہاں میڈیا مالکان اور تمام کارکنان بظاہر ایک پلیٹ فارم پر متحد دکھائی دیتے ہیں وہاں بہت کم سہی لیکن کچھ کارکنان اس آرڈننس کی وکالت کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں اور جدوجہد،تاریخ، قانونی تحفظ سے ناواقف ساتھیوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پہلے سے موجود  قانون کو حکومت کیونکہ ختم کرنا چاہتی ہے ؟ حکومت کو اس قانون سے کیا مسئلہ اور مشکل ہے ؟ اس کا جواب صرف اتنا ہے کہ یہ اخباری مالکان کا مطالبہ ہے جسے حکومت نے پورا کیا ہے بصورتِ دیگر اس قانون سے حکومت کا کوئی نقصان نہیں ما سوا ئے اس کے کہ کاکنان وقتاً فوقتاً حکومت سے ویج بورڈ کے ئرمین کے تقرراور رد آف دی گورنمنٹ قائم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔

اخباری کارکن اگر میڈیا مالکان کے ساتھ صحافت کی آزادی پر قدغن کے حوالے سے ایک پیج پر ہیں تو یہ جزوی طور پر تو درست ہوسکتا ہے لیکن اجتماعی طور پر انہیں ب بحیثیت  ورکر اپنے الگ تشخص کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا اور سب سے پہلا مطالبہ یہ دہرانا ہوگا کہ نیوزپیپرز ایمپلائیز ایکٹ  انیس تہتر پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، صحافت کی آزادی کا اگر دیانتداری سے جائزہ لیا جائے تو کارکنوں کے معاشی اور قانون تحفظ سے زیادہ اہم نہیں اگرچہ اس سے انکار بھی ممکن نہیں لیکن یہ بھی کھلے دل سے تسلیم کرنا ہوگا کہ صحافت کی آزادی پر سب سے بڑی قدغن میڈیا مالکان کے ذاتی مفادات اور خواہشات ہیں ۔

 ایسے حالات میں کارکنوں کی تمام تنظیموں کو اپنی اپنی جنرل کون سلکے اجلا س بلاکر اپنے کارکنوں کے اس آرڈننس کے مضمرات سے آگاہ کرنا اور نیوز پیپرز ایمپلائیز ایکٹ کے تحفظ کے ل لئے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہونے کے لئے موثر حکمتِ عملی بنانا ہوگی ، جو بھی تنظیم کارکنوں کے حقوق کے تحفط ک نعرہ لگاتی ہے اگر وہ اس عمل سے نہیں گذرتی تو آنے والے وقت میں اپنے ساتھیوں کی مجرم ہوگی کیونکہ اس وقت اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے بولنے کے بجائے خاموش رہنا مجرمانہ کوتاہی ہے، اس کوتاہی کا مرتکب نہیں ہونا چاہئے ۔ آنے والی نسل سے اپنا گریبان بچانے کے لئے کسی کو بھی وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔(محمد نواز طاہر)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں