بلاگ: منہال اقتدارحسین صدیقی
گزشتہ دنوںکچھ واقعات کے حوالے سے ذرائع ابلاغ ،بالخصوص الیکٹرانک اور سوشل میڈیاکا کردار بہت زیادہ زرِبحث رہا،بے شمار لوگوں کی توجہ اس جانب رہی۔ویسے یہ ہمارے ملک عام روایت رہی ہے کہ اچانک کوئی خبر یا بہ یک وقت کئی کئی موضوعات زیرِبحث رہتے ہیں اور صبح وشام ان پر چرچا ہوتا رہتا ہے اور ان موضوعات پر ٹاک شوز میں بڑی بڑی باتیں کی جاتی ہیں۔میڈیا کی پہلی ذمہ داری ہے کہ وہ دیانت داری کے ساتھ سچی اور درست خبر فراہم کریں۔ خبروں یا اور دوسرے پروگرامز میں پسند نا پسند کاعنصر شامل نہ کریں۔ٹیلی ویژن کے پروگرامزکیا کسی کے ذہن کی آب یاری کرسکتے ہیں؟کیا مطالعے کا ذوق پروان چڑھا سکتے ہیں؟کیاتحریرنگاری کی صلاحیت پیداہوسکتی ہے؟چند استثنائی صورتوں کے سوا یقینا جواب نفی میں ہوگا۔حرف اور ذہن کا جو رشتہ تحریر سے قائم ہونا ہے تصوراس کی جگہ نہیں لے سکتی۔بے شک ایک تصویر سو سطروںپر بھاری ہوتی ہے لیکن وہ ذہن سازی کی صلاحیت نہیں رکھتی۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جو اعتبار اور اعتماد پرنٹ میڈیا کو حاصل ہے ٹی وی چینلز اپنی تمام تر مقبولیت اور ناظرین کا ایک بڑا حلقہ رکھنے کے باوجود،اس منزل سے ابھی دور ہیں لیکن بہرحال ان کی اس خوبی کا مقابلہ ہوسکتا کہ ٹی وی چینلز پرنٹ میڈیا کے برعکس ،لمحہ بہ لمحہ اپنے ناظرین کو باخبر رکھتے ہیں اور ان کی نشریات کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیے ناظرین کا تعلیم یافتہ ہونا بھی ضروری نہیں ہوتا۔اور دوسری جانب اگر ایک صحافی کی بات کی جائے تو صحافی ایک اہم ترین میڈیا کا کردار ہوتا ہے، ایک صحافی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ مسائل اور مشکلات کے متعلق قوم اور دنیا کو آگاہ کرے۔مگر پاکستان میں ایک صحافی کے بولنے پر پابندیاں ہیں ،ہمارے ملک میں صحافیوں کے ساتھ دھمکی آمیز رویہ اور ان کی جان کو لاحق خطرات درپیش رہیں گے۔کیا سچائی سامنے لانے والے اسی طرح شہید ہوتے رہیں گے۔(منہال اقتدار حسین صدیقی)۔