تحریر: خرم علی عمران
معاش کا معاملہ بڑا نازک ہے ایک روایت کا مفہوم کچھ یوں بنتا ہے کہ مفلسی کفر تک لے جاتی ہے۔ وطنِ عزیز میں نت نئے تجربوں اور طریقوں اور نظاموں کو استعمال کرتے ہوئے معاملاتِ ریاست چلانے کی روایت کی داغ بیل تو بانیانِ پاکستان کے رخصت ہوجانے کے بعد اولین برسوں میں ہی ڈال دی گئی جو کہ تاریخ ہے اور سب اس سے واقف ہی ہیں۔ گویا پاکستان کو ایک لیبارٹری تصور کیا گیا اور نت نئے سیاسی اور ریاستی فارمولے آزمائے جاتے رہے کہ شاید سونا بنانے کا نسخہ ء کیمیا کہیں سے ہاتھ آجائے مگر وہ تو ہاتھ نہیں آیا بلکہ ریاست کے ساتھ ہی ایسا ہاتھ ہوا اور لیبارٹری میں ایسا دھماکہ ہوا کہ آدھا حصہ ہی اڑ گیا۔ بہرحال بچی کچی لیبارٹری کو جلدی اور پھرتی سے دوبارہ سیٹ کرکے ہمارے اولوالعزم ذمہ داران نے بلکل بھی ہمت نہیں ہاری اور تجربات کا سلسلہ وہیں سے شروع کیا گیا جہاں سے ٹوٹا تھا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے مگر نہ جانے کیوں بلحاظِ درکارکامیابی، ہنوز دلی دور است والا معاملہ ہے۔
توپاکستان لیبارٹری میں ان گوناگوں تجربات میں کچھ ایسے معاشی سماجی سیاسی ٹائپ سائنسدان بھی شامل ہوگئے یا بوجوہ کئے گئے جنہوں نے سونا بنانے کا نسخہء کیمیا دریافت تو کرلیا مگر صرف اپنے اور اپنے متعلقین کے لئے بس خود کو فائدہ پہنچانے کی صورت میں۔ انہوں نے اتنا سونا بنایا اتنا سونا بنایا اور اب تک بنا رہے ہیں کہ ماشااللہ دنیا کے تقریبا ہر ملک میں صاحبِ جائیداد اور اکاؤنٹ ہولڈر بن گئے اور اپنی اپنی ارضی جنتیں بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔۔ لیکن ہم جیسے اس قسم کی سائنس سے نابلد عوام الناس بس حسرت سے ان کامنہ ہی تکتے رہے اور تک رہے ہیں اور جو حالات بظاہر نظر آرہے ہیں تو خاکم بدہن لگتا ہے کہ تکتے ہی رہیں گے۔ان صاحبانِ ہنر منداں نے ہر شعبے میں سرمایہ کاری اور افراد سازی برائے ذاتی مفادات اورملکی و بین الاقوامی قرضے لے کر ہڑپنے کی ایسی لاجواب مہارت حاصل کی جس کے نتیجے میں یہ خود تو کراماتی اور معجزاتی حد تک خوشحال ہوگئے مگر جس کا منطقی نتیجہ معاشی بربادی کی صورت میں مرتب ہوا اور لیبارٹری کا ہر شعبہ بحران کا شکار ہوگیا۔۔۔
انہی تجربات کی دھن میں کچھ سالوں قبل ایک نیا ٹول یا نئی ایجاد سامنے آئی بلکہ اگر دریافت کہا جائے تو زیادہ موزوں ہوگا کہ ایجاد تو یہ بہت پرانی تھی اور دیگر ملکوں میں اس ٹول کو بڑی کامیابی سے برسوں سے استعمال کیا جارہا تھا پر ہماری یہاں یہ آلہ یا ٹول اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کے اوائل میں متعارف ہوا اور اسکا پرنٹ ورژن تو پہلے ہی سے روبہ عمل تھا اب آیا الیکٹرانک ورژن یعنی الیکٹرانک میڈیا اور صاحب کیا آمد تھی وہ جو کسی نے کہا کہے نا کہ کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے ۔۔ رستم کا بدن زیر کفن کانپ رہا ہے۔۔ تو ایسے ہی تھرتھری اور دھوم مچائی اس نے شروع میں تو کہ کیا کہنے۔ہنر مند لوگوں کے لئے،نوجوانوں کے لئے بلاشبہ اس وقت ایک شاندار شعبہ برائے ملازمت وجود میں آیا اور بڑے اچھے مشاہرے کارکنوں اور افسران کی سطح پر دیئے گئے اور خوب معاشی رونق لگی۔ لیکن پھر اوپر بیان کردہ معاشی بدحالی اور بد انتظامی نے اسے بھی لپیٹ میں لے ہی لیا وجوہات چاہے جو ہوں لیکن نتائج بڑے بھیانک ہیں بھیا۔۔
میڈیا چاہے پرنٹ ہو یا الیکٹرانک ،اس کے فوائد و نقصانات سے قطع نظر یہ کسی بھی ریاست کا ایک بہت اہم ٹول ہوتا ہے،کہتے ہیں کہ روس کے خلاف برسوں تک جاری کولڈ وار میں امریکا نے اپنے دیگر بہت سے اقدامات اور چالوں کے ساتھ ساتھ اسی ٹول کی مدد اس کے شاطرانہ اور ذہانت آمیز استعمال سے پروپیگنڈا وار لڑی اوربلاآخر روس کو توڑ ہی دیا۔ اب بھی مغربی دنیا اور خصوصا امریکا کا یہ بہت بڑا ہتھیار ہے اور اس میں اب سوشل میڈیا بھی شامل ہوگیا ہے۔ لیکن گزشتہ دو تین سال سے ہمارے ملک میں اس شعبے پر معاش اور تنخواخوں کے حساب سے جو بحران ہے اور اس میں الیکٹرانک میڈیا کے بڑے بھائی پرنٹ میڈیا کے کارکنان بھی برابر سے متاثر ہیں اس حقیقی یا مصنوعی بحران نے ناقابل بیان حد تک دگرگوں صورتحال پیدا کردی ہے خاص طور پر نچلے درجے کے کارکنان کے لئے۔ اور اب تو کارکنان تو کارکنان چھوٹے بڑے افسران کی سطح پر بھی شدید اضطرابی کیفیت طاری ہونا شروع ہو گئی ہے۔ کسی بھی وقت ملازمت سے فارغ کردیئے جانے کے خدشات بروقت تنخواہیں نہ ملنا اور کہیں کہیں تو بلکل ہی نہ ملنا اور مختلف انواع کی کٹوتیوں کی وجہ سے اس شعبے سے وابستہ لوگ ذہنی دباؤ سے بیمار ہورہے ہیں، دل کے امراض کا شکار بن رہے ہیں اور مایوسی اور گھٹن سے بے حال ہیں ۔ بہت پریشان ہیں۔ اس سے وابستہ کئی واقعات تو آپ اس ویب سائٹ پر بھی پڑھ چکے ہیں۔
اب حل یہی ہے کہ ورکرز، حکومت، میڈیا کے بڑے اور ذمہ داران مل کر اور سر جوڑ کر بیٹھیں اور بحران اور مسئلے سے نکلنے کی کوئی ٹھوس راہ اور کوئی واضح روڈ میپ سبسڈی،کارکنان کے معاشی تحفظ کے لئے قانون سازی اور دیگر بہت سے اقدامات کی شکل میں تلاش کریں۔اس سلسلے میں اجتماعی کاوش کرنا لازم اور لابد ہے کہ اس بحران کو ٹالنا اس سے نکلنا کسی ایک ادارے اخبار یا چینل کے بس کی بات نہیں بلکہ سب کو بعض بنیادی باتوں پر اتفاق کرکے مل کر کوشش کرنا ہوگی۔ ہوائی باتوں ،مفروضوں اور طفل تسلیوں سے کام نہیں چلے گا بلکہ کوئی ایسا ٹھوس اور مستقل لائحہ عمل سب فیصلہ سازوں کو مل کر ضرور بالضرور بنانا بڑے گا کہ اس شعبے سے وابستہ لوگ معاشی اطمینان اور استحکام حاصل کرسکیں۔ اور اگر ایسا نہ کیا گیا اور مٹی پاؤ پالیسی یا انتظار کرو سب ٹھیک ہوجائے گا والا لائحہ عمل اپنایا گیا جو کہ فی الحال اپنایا ہوا ہے تو پھر بات بگڑتی چلی جائے گی اور خرابی بڑھتی ہی چلی جائے گی اور خدشہ ہے کہ موجودہ زمانے کی پروپیگنڈہ اور ففتھ جنریشن وار کے اس اہم ٹول کو کہیں زنگ ہی نہ لگ جائے۔(خرم علی عمران )