تحریر: خرم علی عمران
اپنی مدد آپ کا کلیہ کامیابی کی کلید ہوتی ہے۔ ایک فرد اٹھتا ہے اخلاص سے کام شروع کرتا ہے اور ادارے بنا جاتا ہے جو اس کے جانے کے بعد بھی لوگوں کی بھائی میں مشغول رہتے ہیں۔ حکیم محمد سعید مرحوم و مغفور،جناب عبدالستار ایدھی اور بھی کئی روشن نام اس کی بہترین مثال ہیں ۔ ملک میں موجود معاشی بدحالی نے بلاشبہ تمام ہی شعبوں پر اثر ڈالا ہے۔بے روزگاری اور مہنگائی نے واقعی اب تو کمر توڑ دینے جیسی صورتحال کردی ہے۔ میڈیا اور صحافت کے شعبے میں بھی ابتر صورتحال ہے۔آ ج عمران جونیئر ڈاٹ کام پرعثمان جامعی صاحب کی مختصر تحریر پڑھ کر چند باتیں ذہن میں آئی ہیں پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں گر قبول افتد زہے عز و شرف۔ پہلی بات یہ کہ اپنی حالت بدلنے کے لئے خود اپنی مدد آپ کے تحت صحافی برادری کو اور میڈیا کے شعبے سے وابستہ افراد کو ہی کام کرنا پڑے گا۔ واضح رہے کہ یہ تحریر اور اس میں پیش کردہ خام تجاویز کا اجمالی خاکہ جسے یقینا بہتر بنا جاسکتا ہے اور وہ فی الحال صرف معاشی پہلو سے جڑا ہے۔ اگر کراچی پریس کلب کے ذمہ داران توجہ فرمائیں تو بات بڑی حد تک بن سکتی ہے۔ سب سے پہلے ایک فنڈ قائم کیا جائے جس کی جانب جامعی صاحب نے بھی اشارہ فرمایا ہے۔ اس کو اگر ذرا بڑے کینوس پر دیکھا جائے تو یہ فنڈ صحافت سے وابستہ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی یا کونسل کے تحت کام کرے۔ اپنے روابط اور پی آر کو اس نیک مقصد کے لئے بھرپور طریقے سے بروئے کار لایا جاسکتا ہے اور لایا جانا چاہیئے۔
اس فنڈ میں ہر شعبہ صحافت سے وابستہ ہرکارکن اپنی خوشی سے رضاکارانہ طور پر کچھ نہ کچھ حصہ بقدر جثہ ڈالے۔ اس سلسلے میں مخیر حضرات اور اداروں سے بھی معاونت کی درخواست کی جاسکتی ہے۔ اس فنڈ کی رقم کا کچھ محفوظ سرمایہ کاری میں رکھا جائے اور حاصل شدہ منافع سے صحافیوں اور میڈیا کے دیگر کارکنان کو بوقت ضرورت مدد فراہم کی جائے۔ اس سلسلے میں قواعد وضوابط طے کئے جاسکتے ہیں اور کیٹیگریز بنائی جاسکتی ہیں کہ کن حضرات برائے شعبہء صحافت کو کن وجوہات پر ترجیحا امداد دی جاسکتی ہے اور وظائف بھی مقرر کئے جاسکتے ہیں۔ان قواعد و ضوابط میں یقینا سب سے اہم سینیارٹی ہونا چاہیئے۔
عطیات وصولی کا عمل مسلسل جاری رہے۔اچھی شہرت کے حامل نیک نام افراد کے وفود بنائے جائیں جو ملک کے مخیر حضرات اور اداروں سے مالی معاونت حاصل کریں اور محفوظ سرمایہ کاری میں وسائل کے مطابق اضافہ کیا جاتا رہے۔ اس سلسلے میں بین الاقوامی ڈونرز سے بھی رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ اس فنڈ کی نگرانی کے لئے پریس ٹرسٹ یا اسی نوعیت کی کوئی دوسری باڈی بنائی جائے جس کے ممبران میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کی ممتاز ریٹائرڈ شخصیات بطور سرپرست شامل ہوں۔ اس سلسلے کو ملک کے دیگر پریس کلبس تک رفتہ رفتہ توسیع دی جائے اور ہر پریس کلب داخلی خود مختاری اور باہمی رابطے کے ساتھ اپنے اپنے علاقوں میں صحافی حضرات اور میڈیا کارکنان کی امداد میں معاونت کرے۔
اس سلسلے میں اخلاص،شفافیت اوراجتماعیت درکار ہوگی۔یہ ایک ابتدائی نوعیت کا خاکہ سا ہے ۔تجربہ کارحضرات اور ماہرین باہمی مشاورت اور غور و فکر سے اسے مزید بہتر سے بہتر بنا سکتے ہیں۔ ایک کام یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ اس تحریر کی طرح جو کہ دراصل ایک تجویز برائے اصلاح احوال ہے دیگران سے،صحافی کارکنان اور افسران سے بھی تحریری تجاویز اور مشاورت طلب کی جائے اور پھر سب تجاویز اور پروپوزلز پر غورو فکر کرکے ایک بہترین نظام ترتیب دیا جائے۔ اس سلسلی میں ہم ٹیکنالوجی کا سہارا بھی لے سکتے ہیں اور الیکٹرانک فنڈنگ کے طریقے اپنائے جاسکتے ہیں اور اس فنڈنگ کونسل کی ایک ویب سائٹ تشکیل دی جاسکتی ہے جس پر اس سے متعلق معلومات کو مستقل اپ ڈیٹ کیا جاتا رہے۔ یعنی کن افراد اور اداروں نے تعاون کیا ۔ سرمایہ کاری کی کیا صورتحال ہے۔ کون معززحضرات رضاکارانہ سرپرستی فرما رہے ہیں وغیرہ لیکن امداد دیئے گئے صحافی بھائیوں کیا ریکارڈ تو رکھا جائے لیکن اسے ظاہر نہ کیا جائے تاکہ کسی کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ ان باتوں اور کاموں کے لئے صاحبَ عزیمت رضاکار خواتین و حضرات کی ضرورت ہوگی جو خدمت اور اپنے شعبے کے مستحق افراد کی مدد کے جذبے سے سرشار ہوکر اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ حصہ صرف کریں۔ یقین کریں کہ خدمت کا عمل کبھی رائیگا ں جا نہیں سکتا۔ اور دونوں جہانوں میں کامیابی اور رضائے الہی کا ضامن ہے۔ تو اس تجویزِ خام کے ابتدائی خاکے میں مزید رنگ بھرتے ہوئے زیر عمل لانے کی التجا درخواست اور گزارش ہے۔ (خرم علی عمران)