خصوصی رپورٹ۔۔
کراچی پریس کلب کے صدر فاضل جمیلی،سیکرٹری محمدرضوان بھٹی اور دیگرعہدیداروں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے ایم ڈی وسیم خان کی جانب سے نجی ٹی وی پروگرام میں پاکستان اسپورٹس جرنلسٹس کے خلاف ہتک آمیز الفاظ استعمال کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے انہیں عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیاہے۔کراچی پریس کلب سے جاری ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ وسیم خان کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے،ایک ذمہ دارانہ عہدے پر فائز ہوتے ہوئے اس قسم کے بیانات کسی بھی طور مناسب نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ وسیم خان صحافیوں کے خلاف ہتک آمیر الفاظ استعمال کرنے سے قبل یہ بتانا پسند کریں گے کہ ملک بھر کے کرکٹ آرگنائزر کی زبانیں کیوں چپ کروادی گئیں؟ کلب کرکٹ کو کس طرح سے یرغمال بنادیا گیا ہے؟ پاکستان کرکٹ بورڈ کو کیوں گھر کی لونڈی بنادیا گیا ہے؟۔کراچی پریس کلب کے صدراور سیکرٹری نے وزیراعظم پاکستان اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے سرپرست عمران خان سے مطالبہ کیا کہ وسیم خان کو ان کے عہدے سے ہٹایا جائے اور برطانوی شہریت رکھنے والے کی بجائے کسی پاکستانی کو ایم ڈی کے عہدے پرتعینات کیا جائے۔انہوں نے وسیم خان سے فوری طور پر اسپورٹس جرنلسٹس سے معافی مانگنے کا بھی مطالبہ کیا۔
دریں اثنا کراچی یونین آف جرنلسٹس نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو وسیم خان کی جانب سے ایک یو ٹیوب چینل کو انٹرویو کے دوران پاکستانی میڈیا سے متعلق ہتک آمیز الفاظ استعمال کرنے کی شدید مذمت کی ہے اور وزیراعظم عمران خان سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر وسیم خان کو ان کے عہدے سے برطرف کریں کے یو جے نے ملک بھر کی صحافی برادری سے پاکستان کرکٹ بورڈ اور وسیم خان کی تمام کوریجز کے مکمل بائیکاٹ کی بھی اپیل کی ہے کراچی یونین آف جرنلسٹس کے صدر نظام الدیفن صدیقی، جنرل سیکریٹری فہیم صدیقی سمیت مجلس عاملہ کے تمام اراکین کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وسیم خان کی جانب سے پاکستان میڈیا خاص طور پر اسپورٹس جرنلسٹس سے متعلق جن الفاظ کا استعمال کیا گیا وہ ان کی ذہنی حالت اور خاندانی تربیت کا اظہار ہیں۔ دنیا بھر میں میڈیا کی جانب سے حکومتوں اور ان کے اداروں کی کارکردگی پر تنقید کی جاتی ہے اور وسیم خان نے جس غیرملکی میڈیا کا اپنے انٹرویو میں حوالہ دیا ہے وہاں ایسی تنقید کو مثبت لیا جاتا ہے اور ادارے میڈیا پر حملوں کی بجائے اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے پر توجہ دیتے ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک اسپورٹس مین کی حکومت میں ملک کے اہم ترین ادارے پاکستان کرکٹ بورڈ میں ایک غیرملکی شہریت کے حامل شخص کو اہم ترین پوسٹ پر تعینات کیا گیا ہے جو ملک میں کرکٹ کی تباہی کا اصل ذمہ دار ہے وزیراعظم عمران خان اگر ملک میں کرکٹ کی ترقی چاہتے ہیں تو انہیں وسیم خان جیسے شخص کو اس کے عہدے سے ہٹانا ہوگا جس نے تاج برطانیہ کے مفادات کے تحتظ کا بھی حلف لے رکھا ہے بیان میں کہا گیا ہے کہ وسیم خان کا بیان پاکستانی صحافیوں کو ہراساں کرنے کے مترادف ہے اور ملک میں صحافیوں کے تحفظ کے قوانین جس کا بل سندھ اسمبلی منظور کرچکی ہے اس کے تحت ایک جرم ہے کے یو جے نے وسیم خان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر پاکستانی میڈیا سے متعلق ہتک آمیز الفاظ واپس لیں اور اپنے رویے کی معافی مانگیں بصورت دیگر کراچی یونین آف جرنلسٹس وسیم خان کے خلاف صحافیوں کے تحفظ کے کمیشن کو شکایت بھیجنے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔۔
علاوہ ازیں اسپورٹس جرنلسٹس ایسوسی ایشن سندھ (سجاس) نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو وسیم خان سے عام معافی کا مطالبہ کیا ہے۔ سجاس نے اپنے مذمتی بیان میں سی ای او وسیم گلزار خان کی جانب سے ایک یوٹیوب چینل کو دیئے جانے والے انٹرویوں میں پاکستان کے اسپورٹس جرنلسٹس کے لئے غیر اخلاقی اور ناشائستہ زبان کے استعمال کی پر زور مذمت کی ہے، سجاس کے صدر آصف خان اور سیکریٹری اصغر عظیم سمیت تمام عہدیداران اور مجلس عاملہ نے اپنے مشترکہ بیان میں مزید کہا ہے کہ وسیم خان نے اپنے الفاظ واپس نہیں لئے اور صحافیوں سے کھلے عام معافی نہ مانگی تو ان کے خلاف احتجاج بھی کیا جاسکتا ہے، اچھے اور برے صحافی کی لکیر کھینچ کر درحقیقت وسیم خان من پسند سوالات نہ کرنے والے صحافیوں کو دباو میں لانے اور بلیک میل کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں، پی سی بی میں بڑی بڑی شخصیت عہدیدار ائے اور چلے گئے لیکن صحافی اپنی جگہ موجود ہیں اور رہیں گے، تاج برطانیہ کا وفادار برطانیہ کی طرز حکومت لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی پر گامزن ہے، سب جانتے ہیں کہ پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ کو تباہی پر پہنچانے والے وسیم خان کی تقرری اہلیت کے بجائے سفارش کی بنیاد پر کی گئی ہے، وسیم خان اپنے عہدے کی معیاد کو طول دینے کے چکر میں دماغی دیوالیہ پن کا شکار ہوگئے ہیں ان کی صحافیوں کو آپس میں لڑانے کی خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی،باصلاحیت اور متحد پاکستانی اسپورٹس جرنلسٹس پیشہ وارانہ طور پر دنیا بھر میں ایک باعزت اور پروقار مقام رکھتے ہیں۔۔(خصوصی
رپورٹ)۔۔