تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،بھارتی ریاست مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ دوندرا فدانوس کی اہلیہ امرتا فدانوس نے دعویٰ کیا ہے کہ ریاستی دارالحکومت ممبئی میں تین فیصد طلاقوں کی وجہ ٹریفک جام ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلق رکھنے والی امرتا نے کہا کہ۔۔ میں یہ بطور عام شہری کے کہہ رہی ہوں، میں روزانہ کی بنیاد پر ٹریفک جام دیکھتی ہوں، کیا آپ کو پتا ہے کہ ممبئی میں اس کی وجہ سے کتنی طلاقیں ہو رہی ہیں؟ تین فیصد، کیونکہ لوگ ٹریفک کے مسائل کی وجہ سے اپنی فیملی کیلئے وقت ہی نہیں نکال پاتے۔مہاراشٹر کی حکمران جماعت شیو سینا کی خاتون رہنما نے اس حیران کن دعویٰ پر اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ سب سے اچھی منطق کا ایوارڈ ان صاحبہ کو جاتا ہے جو سمجھتی ہیں کہ تین فیصد طلاقیں ٹریفک کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ برائے مہربانی دماغ کو چھٹی پر بھیجنے کی بجائے خود چھٹی پر چلی جائیں۔
دوسری طرف اگر وطن عزیز کی بات کی جائے تو پنجاب انفارمیشن کمیشن کے حکم پر خواتین اور بچوں پر تشدد کے حوالے سے پبلک کی جانیوالی تازہ رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ گزشتہ 6ماہ کے دوران صوبے میں2ہزار 439 خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ 9ہزار 529 خواتین اغوا ہوئیں،جولائی 2021ء سے دسمبر 2021 تک 22ہزار 30خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ 428خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوئیں، 90خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا،مذکورہ عرصہ میں 897 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ 204چائلڈ لیبر اور 12کیسز کم عمری میں شادیوں کے رجسٹرڈ ہوئے دستاویزات کے مطابق صوبہ پنجاب میں خواتین پر تشدد کے سب سے زیادہ کیسز لاہور میں درج ہوئے جن کی تعداد4ہزار 978 ہے،اسی طرح لاہور ہی میں سب سے زیادہ 2ہزار 330 خواتین اغوا ہوئیں، خواتین کے ساتھ ریپ کے سب سے زیادہ 396کیسز بھی لاہور میں ہی درج کئے گئے، دستاویزات کے مطابق شیخوپورہ میں خواتین کے اغوا کے 423، ریپ کے 78اور خواتین پر تشدد کے 990کیسز رجسٹرڈ ہوئے اسی طرح ننکانہ میں خواتین پر تشدد کے 397، اغوا کے 136، ریپ کے 32، قصور میں تشدد کے 1ہزار 239، اغوا کے 371، ریپ کے 101،گوجرانوالہ میں تشدد کے 777، اغوا کے 309، ریپ کے 78کیسز رجسٹرڈ ہوئے۔
پنجاب بھر میں خواتین کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے،یقینی طور پر اس کا سخت نوٹس لینے کی ضرورت ہے، ہمارے خیال میں ہمارے معاشرے میں خواتین انتہائی مظلوم مخلوق ہے، (واضح رہے یہاں شہری خواتین کی بات نہیں ہورہی، شہری خواتین میں پھر بھی تھوڑا بہت حوصلہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے خلاف ہونے والے ظلم پر صدائے احتجاج بلند کر سکے)۔۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ’’نادرا‘‘ کی طرف سے بتایا گیا تھا کہ 2018کے بعد سے اب تک 28ہزار 723پاکستانی جنس تبدیلی کی درخواست دے چکے ہیں۔یہ انکشاف اس وقت سامنے آیا جب ایوان بالا میں سینیٹر مشتاق احمد کے سوال پر وفاقی وزیرداخلہ شیخ رشید احمد کی طرف سے ایک تحریری جواب جمع کرایا گیا ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ گزشتہ تین سال کے دوران 16ہزار 530مردوں نے نادرا کے ریکارڈ میں اپنی جنس تبدیل کرکے خود کو عورت کے طور پر رجسٹرڈ کرانے کی درخواست دی۔ اسی عرصے کے دوران 12ہزار 154خواتین نے نادرا کو اپنی جنس تبدیل کرکے خود کو مرد کے طور پر رجسٹر کرنے کی درخواست دی۔ تحریری جواب میں مزید بتایاگیا کہ گزشتہ تین سال کے عرصے میں 9شہریوں نے اپنی جنس مرد سے تبدیل کرکے خواجہ سراکے طور پر رجسٹرڈ کرنے کی درخواستیں بھی دیں۔ اسی طرح 9شہریوں نے اپنی جنس خواجہ سراسے تبدیل کرکے عورت کے طور پر درج کروانے کی درخواستیں دی ہیں۔ تحریری جواب میں بتایا گیا کہ نادرا جنس کی تبدیلی کا سرٹیفکیٹ جاری نہیں کرتا تاہم جنس طبی وجوہات کی بناپر ریکارڈ میں تبدیل کی جاتی ہے اور خواجہ سراافراد کی بطور مرد یا عورت رجسٹریشن کی جاتی ہے۔
نادرا کے انکشاف سے تو ہم حیرت زدہ رہ گئے کیوں کہ اس رپورٹ سے لگ ایسا رہا ہے کہ خواتین کو عورت ہونا اور مردوں کو مرد ہونا پسند نہیں، دونوں اپنی اپنی جنس تبدیل کرانے کے چکر میں ہیں، سرسید احمد خان نے واقعی سچ کہاتھا، انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا۔۔اب تو آپ یقینی طور پر مان گئے ہوں گے کہ ہم ایک لاعلاج قوم بن چکے ہیں، جس قوم کے فقراء اور غرباء کے پاس رہنے کے لئے مکانات نہ ہوں۔۔ وہاں جلسہ اور جلوس اور دھرنوں پہ کروڑوں روپے صرف ہوتے ہوں، کیا وہ قوم ترقی کرسکتی ہے؟۔۔۔جس قوم میں پڑوس کی بیٹی کنواری بیٹھی ہو اور بیواؤں اور یتیموں کا کوئی آسرا نہ ہو۔۔ اورقوم کے دولت مند لوگ عمرہ پرعمرہ اور حج پہ حج کررہے ہوں، کیا وہ قوم ترقی کر سکتی ہے؟۔۔۔ جس قوم کے غریب بیماروںکے پاس علاج کا کوئی بندوبست نہ ہو،حکمراں اور لیڈران معمولی سر کے درد کا علاج بھی بیرون ملک کراتے ہوں، کیا وہ قوم ترقی کر سکتی ہے؟۔۔ جس قوم کے ہونہار نوجوان بیروزگاری کے شکار ہوں اور قوم کے مالدار لوگ اپنے محلّات سجانے اور سنوارنے میں لگے ہوں ، کیا وہ قوم ترقی کر سکتی ہے؟۔۔۔ جس قوم کے لوگ اپنے امام اور مؤذن کا خون چوس رہے ہوں،اورمسجدیں سنگ مرمر سے سجائی جارہی ہوں، کیا وہ قوم ترقی کر سکتی ہے؟۔۔جس قوم میں ٹریفک کے سگنل پہ ایک منٹ انتظار کرنے کا حوصلہ نہ ہو، کیا وہ قوم ترقی کرسکتی ہے؟۔۔۔ جس قوم کے اساتذہ تنخواہوں کے لئے سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہوں اور پولیس کو ان کی پھینٹی لگانے کے لئے کھلا چھوڑ دیاجائے، کیا وہ قوم ترقی کرسکتی ہے؟؟۔۔مان لیں کہ ہم لاعلاج قوم بن چکے ہیں۔۔۔کہتے ہیں کہ دنیا کی نظر میں ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ،لیکن ہماری نظر میں عورت ہاتھ ہی کامیاب مرد پر رکھتی ہے۔۔باباجی نے مشورہ دیا ہے کہ ۔۔بیویوں کو چاہیئے کہ وہ شوہر کو کتاب کی طرح پڑھا کریں، یہ ایک اچھی عادت ہے، لیکن پڑھتے ہوئے آواز اتنی بلند نہ کیا کرے کہ روز سارا محلہ سْن رہا ہو۔۔کچھ لڑکیاں تو اتنا میک اپ کرکے گھرسے نکلتی ہیں جیسے گھر والوں سے کہہ کر آئی ہوں کہ آج میں گھر اکیلی نہیں آؤں گی آپکا داماد لے کرواپس لوٹوں گی۔۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ سردیوں میں ان خواتین کے ہاتھ نرم و ملائم رہتے ہیں جو اپنے شوہروں سے برتن دھلواتی ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔