تحریر: انصار عباسی۔۔
ایسے ایسے مذہب سے بیزار ’’سیانے‘‘ قوم کی ’’رہنمائی‘‘ کے لیے ٹی وی چینلز پر بٹھا دیے گئے ہیں کہ اُنہیں سن کر بندہ سر پکڑ لیتا ہے کہ یہ کہہ کیا رہے ہیں۔ خصوصاً اگر بھاشن دینے والا فرد اپنے آپ کو پروگریسیو اور ماڈرن سمجھتا ہے تو خطرہ بڑھ جاتا ہے کہ وہ مذہب کے معاملات میںکوئی ایسی بات کرے گا جو دراصل اُس کی اپنی جہالت کوضرور ظاہر کرے گی اور اُس کا حقیقت سے بھی کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ اُنہیں سن کر صاف ظاہر ہوتا ہو کہ ان کو اصل مسئلہ اسلام سے ہے۔ ورنہ رحیم یار خان میں ایک مندر پر حالیہ قابل مذمت حملہ کا اسلام سے کیا تعلق؟ ایک ٹی وی چینل پر ایک ’’سیانی‘‘ کو کہتے سنا کہ مسئلہ یہ ہے کہ نئے تعلیمی نصاب میں اسلام کو بہت زیادہ شامل کر دیا گیا ہے ۔ اس بارے میں جو کچھ اور کہا گیا وہ حقیقت سے مختلف تھا لیکن مجھے حیرانی اس بات پرہوئی کہ اسلا م پڑھانے یا زیادہ اسلام پڑھانے سے مندر پر حملہ کا کیا تعلق؟؟ اگر اسلام کو پڑھایا جائے، اسلام کو سکھایا اور اُس کا نفاذکیا جائے تو پھر تو اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کی تو اسلام میں سخت ممانعت ہے بلکہ ایک اسلامی ریاست میں یہ حکومت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اقلیتوں کے مذہبی مقامات کی حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ جنہوں نے رحیم یار خان میں ایک مندر کے اندر گھس کر توڑ پھوڑ کی اُنہوں نے اسلامی تعلیمات کے برعکس عمل کیا اور اُس پر اُن کی گرفت ہونی چاہیے۔ کسی ایک سیاسی رہنما، کسی ایک مذہبی رہنما یا عالم دین نے اس حملہ کی حمایت نہیں کی بلکہ جو بولا، اس نے حدکرنے والوں کو بُرا ہی جانا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے اس واقعہ کا نوٹس بھی لے لیا اور وزیر اعظم عمران خان نے بھی ذمہ داروں کی فوری گرفتاری کا حکم جاری کر دیا۔ مسئلہ ہمارا یہ ہے کہ ہم ایک اسلامی ملک تو ضرور ہیں، ہمارے ہاں مسلمانوں کو بہت بڑی اکثریت بھی موجود ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم اسلام کو نہیں جانتے، اُس پر عمل نہیں کرتے، ہم اپنے معاملات، اپنی روز مرہ زندگیوں میں بھی اسلامی تعلیمات اور اسلامی احکامات کا خیال نہیں رکھتے۔ گویا ضرورت تو اس امر کی ہے کہ ہم اپنے ملک میں بسنے والے ہر مسلمان کو آئین پاکستان کے تحت اسلام سیکھائیں، اُنہیں اسلام پڑھائیں، اُنہیں اچھے اور بُرے، ثواب اور گناہ، نیکی اور بدی کی تعلیم دیں تاکہ وہ اچھے مسلمان بن سکیں، دوسروں کے حقوق اور اپنے فرائض کو سمجھ سکیں، کسی بھی قسم کی زیادتی اور ظلم کا ساتھ نہ دیں بلکہ اس کے خلاف کھڑے ہوں، عورتوں، بچوں، بوڑھوں، اقلیتوں وغیرہ کے حقوق کا خیال رکھیں اور اُن کے ساتھ بہترین سلوک روا رکھیں۔ لیکن کیا کریں کہ ٹی وی چینلز پر براجمان ہمارے ’’سیانوں‘‘ کو تکلیف اس بات پر ہو رہی ہے کہ نئے نصاب میں زیادہ اسلا م کیوں پڑھایا جارہا ہے؟ ہمارے ہاں حالات بہت خراب ہیں۔ پہلے بھی کئی بار کہہ چکا کہ جس طرف دیکھیں خرابیاں ہی خرابیاں نظر آ رہی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ ہماری دین سے دوری اور معاشرہ میں تربیت اور کردار سازی کا نہ ہونا ہے۔ اس کے باوجود کہ ہم جتنے بھی بُرے ہیں دنیا بھر میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں چاہے وہ بھارت میں رہ رہے ہوں، امریکا یا یورپ میں ہوں‘جو سلوک اُن کے ساتھ ریاستی اور معاشرتی لیول پر روا رکھا جا رہا ہے، اُس کا پاکستان سے موازنہ نہیں بنتا۔ لیکن ہم مسلمان ہیں، ہمارا ملک اسلامی ہے، ہم جس دین کے ماننے والے ہیں اُس کی تعلیمات کے مطابق بھارت، برطانیہ، فرانس یورپ، امریکا چاہے جو زیادتی مرضی مسلمانوں کے ساتھ کر لیں ہمیں یہاں رہنے والی اقلیتوں اور اُن کی عبادت گاہوں کی حفاظت اُسی طرح کرنی چاہیے جس کی تعلیم اسلام دیتا ہے۔ اس لیے اسلام زیادہ سے زیادہ پڑھائیں، سکھائیں تاکہ پاکستان کے سبز پرچم اور اُس میں موجود سفید حصہ دونوں کے مقصد کے حصول کو یقینی بنایا جائے یعنی پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنایا جائے جہاں اسلام کا مکمل نفاذ ہو اور جہاں اسلامی تعلیمات کے مطابق بسنے والی اقلیتوں کو اپنے اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزرنے کی مکمل آزادی ہو۔اگر کوئی ’’سیانا‘‘ یا ’’سیانی‘‘ یہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں کو اسلام اس لیے نہ پڑھائیں کہ اس پر کسی ’’سیانے‘‘ کو اعتراض ہے اور اس کے لیے وہ اقلیتوں کا نام استعمال کرنا چاہتا ہے تو پھر یہ ایک ایسی جہالت کی بات ہے جس پر عمل کر کے ہم پاکستان میں جاہلیت اور جاہلانہ رویوں کو ہی مزید مضبوط کریں گے۔(بشکریہ جنگ)۔۔