zindagi pari hai abhi

“مزدور مافیا!”

تحریر: شکیل احمد بازغ

محروم طبقے کی سسکیاں اور ابتر معاشی حالت قابل رحم ہے۔ بنیادی ضروریات کا حصول انکے لیئے بھی ضروری ہے۔ لیکن ان دنوں مجھے ہجرت درپیش ہونے کے باعث اس مزدور طبقے سے واسطہ پڑا۔ اس سے پہلے سرکاری دفاتر بھی بھگت چُکا ہوں۔ مجھے ایسا لگا تھا کہ اب دجال کے نکلنے کا وقت آن پہنچا۔ لیکن ابھی تو بہت کچھ دیکھنا باقی تھا۔

 آج سے چالیس سال پہلے میرے والد صاحب نے دوران ملازمت اپنا مکان بنانے کا فیصلہ کیا۔ تیرہ مزدور دو مستریوں نے سادہ سا مکان سات مہینوں میں بنایا میری ماں ان سب کا دوپہر کا کھانا سات ماہ تک بناتی رہی۔ مکان جب مکمل ہوا تو اس کا مرکزی برآمدہ دھڑام سے آگرا اور یوں ایک ماہ مزید مزدور مستریوں کو روزگار کا ذریعہ مل گیا۔

ہماری گلی کا مین ہول بند ہوا۔ سپائی مین کو بلایا تو اس سپائیڈر مین نے گلی کے سارے ڈھکن کھول کر یہ ثابت کردیا کہ سب صاف ہوں گے۔ ایک مین ہول دوہزار چھ مین ہول چودہ ہزار۔ محلے کے چند گھروں نے حسبِ توفیق تعاون کیا۔ باقی کے مجھے دینا پڑے۔

دو من کی ایک الماری فرسٹ فلور پر لے جانا تھی۔ مزدور نے کہا لے جائیں گے پانچ ہزار میں۔

میں نے کہا بھئی الماری کتنے کی لوگے۔ بولا سات ہزار۔ میں نے الماری کا میٹیریل بناوٹ بتا کر دام بڑھانا چاہے اس نے ٹھوک بجا کر مضبوطی چیک کی میں مطمئن تھا کہ اب بحث کے بعد  وہ کم از کم دس ہزار پر مان جائے گا۔ خیر اب اس نے مجھے چھ ہزار بتائے۔ اور اسکی وجہ پرانی ڈیزائننگ بتائی۔ میں نے کہا میٹیریل دیکھو اس نے کہا اب ڈیزائن بِکتا ہے۔

مکان اندر باہر سے وائٹ واش کیلئے مزدوروں سے بات کی۔ سب سے کم شریف النفس مزدور ستر ہزار پر مانا وہ بھی صرف مزدوری جبکہ میٹیریل میرا۔

گھر کے کمروں میں پانچ پنکھے لٹکانے کی اجرت تین ہزار۔

برما مشین سے اٹھارہ سوراخ کرنے کے پندرہ سو۔ استعمال ہونے والی بجلی میری۔

مکان اگر آج کل آپ بنانا چاہیں  میٹیریل تو مہنگا ہے ہی کم و بیش مزدور کی اجرت بھی میٹیریل کے قریب جا پہنچتی ہے۔

میری بائیک کی بیچ کینال روڈ چین ٹوٹ گئی۔ مکینک قریب کوئی نہیں تھا۔ چھ سو روپے رکشہ والے نے لیکر تین کلومیٹر کے فاصلے پر مکینک کے پاس جا پھینکا۔ مکینک نے چین بدلتے بدلتے میری حالت بدل دی۔ مجھے کاموں کی اہمیت بتا بتا کر چھ ہزار بٹور لیئے۔

یونہی آپ ٹھیلے پر سبزی فروٹ لینے چلے جائیں۔ دور سے آپ دلآویز خوبصورت اور بڑے پھل دیکھ کر ٹھیلے پر جاتے ہیں۔ آپ اپنی مرضی سے پھل ترازو میں ڈالیں گے تو سو روپے زیادہ دینا ہونگے۔ وگرنہ بڑے خوبصورت پھلوں کی اوٹ میں پڑا داغی اور چھوٹا ملبہ آپ کو آویزاں بھاؤ پر ملے گا۔

کوئی گھر کی الیکٹرونک مشین خراب ہوجائے تو ٹھیک کرانے کی مزدوری کا سن کر آپ کا دل اس مشین سے اچاٹ ہوجاتا ہے۔ لیکن نئی خرید نہیں پاتے اور بحث و تکرار پر بیس پچاس سو کی رعایت غنیمت مان کر جیب ہلکی کرنا ہی پڑتی ہے۔

 آپ کرائے پر آٹو رکشہ میں کرایہ طے کرکے سوار ہوں۔ اگر ایک گلی اضافی اسے مڑنا پڑجائے تو سو پچاس اضافی لینے کیلئے عین دروازے کے اوپر بلند آواز میں رائتہ پھیلا کر بیٹھ جاتا ہے۔ چاروناچار آپکو دینا ہی پڑتے ہیں۔

ایک صاحب نے کہا بجلی کے اگست کے بِل جو پرنٹ ہوکر آئے ان میں وزیر اعلٰی پنجاب کی عطا کردہ چودہ فیصد رعایت موجود نہیں لہٰذا آپ ویب سائیٹ پر تازہ بل کا پرنٹ لیں اور بمعہ رعایت بل حاصل کریں۔ شاید یہ بھی خدمت کی سیاست کا ایک طریقہ ہو۔

ایک بھکارن دروازے پر آئی۔ سوچا لوٹ کر نہ جائے۔ گھر کے کونوں کھدروں سے سکے نکال کر اسے دیئے جو پانچ روپے بنتے تھے۔ جواباً قوالوں والی بھاری آواز میں نتھنے پھُلا کر اپنی جیب سے مزید پانچ نکال کر میرے ہاتھ پر رکھ کر چل دی۔ یعنی دینے کے لینے پڑگئے۔

جب ہم کہتے ہیں کہ اوپر سے نیچے تک کرپشن دھوکہ دہی اور چونا لگانے کا عمل جاری ہے۔ تو یہ بات صد فیصد درست ہے۔ امیر اور غریب مل کر ہم ایسے سادہ لوح مڈل یا لوئر مڈل کلاس کے ملازمت پیشہ افراد کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے۔ لوٹ مار جبر کے اس عہد کے بعد دین تخت پر آئے گا۔ اور عدالت کا نظام حکومت کا نظام اور کام و اجرت کا نظام سب ٹھیک ہوگا۔ پھر امیر اور غریب میں کوئی مافیا ہم ایسے پڑھے لکھے ملول نان ٹیکنیکلز کو نہیں لوٹے گا۔واللہ اعلم۔(شکیل احمدبازغ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں