تحریر: جاوید چودھری۔۔
’’میں نے یہ آسٹریا سے سیکھا تھا‘ میں جوانی میں آسٹریا چلا گیا‘ ویانا میں ایک فیکٹری میں کام شروع کیا اور پھر اپنی دکان کھول لی‘ وہ ایک چھوٹا سا گروسری اسٹور تھا‘ میرا گزارہ بہت اچھا ہو رہا تھا مگر پھر میری والدہ بیمار ہو گئیں اور مجھے سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آنا پڑ گیا‘ مجھے کاروبار کا چسکا پڑ چکا تھا۔
لہٰذا میں نے لبرٹی مارکیٹ میں گارمنٹس کی دکان کھول لی‘ اللہ نے کرم کیا اور میں خوش حال ہو گیا‘‘ بزرگ رکے‘ لمبا سانس لیا اور بولے ’’لیکن میرے کاروبار کا اسٹائل مختلف تھا‘ میں صبح آٹھ بجے دکان کھولتا اور ٹھیک شام سات بجے دکان بند کر کے گھر آ جاتا تھا‘ میں بچوں کو صبح اسکول بھی چھوڑنے جاتا تھا‘ دوپہر کو انھیں خود واپس لاتا تھا اور ان کے ساتھ لنچ کرتا تھا۔آدھ گھنٹہ قیلولہ بھی کرتا تھا اور تین بجے دوبارہ دکان پر چلا جاتا تھا اور اس کے بعد پھر شام سات بجے دکان بند کر کے ڈنر اپنے خاندان کے ساتھ کرتا تھا اور پھر رات نو بجے کا خبرنامہ سن کر ہمارا پورا خاندان سو جاتا تھا‘ یہ میری روٹین تھی‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’لیکن کیا اس سے آپ کو معاشی نقصان نہیں ہوتا تھا۔لاہور میںلوگ رات بارہ بجے تک شاپنگ کرتے ہیں جب کہ آپ سات بجے دکان بند کر دیتے تھے تو پھر آپ کماتے کیا تھے؟‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’آپ حیران ہوں گے میں مارکیٹ میں سب سے زیادہ سیل کرتا تھا‘ میری دکان میں سارا دن رش رہتا تھا جب کہ ہمسائے سارا دن مکھیاں مارتے رہتے تھے‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا ’’اس کی وجہ کیا تھی؟‘‘ وہ قہقہہ لگا کر بولے ’’شاید میرا توکل اس کی وجہ تھی یا پھر واقعی صبح جلدی اٹھنے والوں کے کام میں برکت ہوتی ہے بہرحال میرا کام رکتا نہیں تھا‘ دوسرا میں مارجن بہت کم رکھتا تھا‘ گاہک بہت سیانے ہوتے ہیں۔یہ سستی چیزوں کے بارے میں جلدی واقف ہو جاتے ہیں‘ میرے گاہک یہ بھی جان گئے تھے میں جلدی دکان بند کر دیتا ہوں چناں چہ یہ دن کو خریداری کر لیتے تھے اور یوں میں شام کے وقت گھر چلا جاتا تھا۔‘‘
میں نے پوچھا ’’آپ نے یہ تکنیک کہاں سے سیکھی اور اس کا کیا فائدہ ہوا؟‘‘یہ سنجیدگی سے بولے ’’میں نے یہ آسٹریا سے سیکھا تھا‘ ویانا میں تمام دفتر‘ شاپنگ سینٹر اور دکانیں صبح آٹھ بجے کھل جاتی تھیں اور شام چھ بجے بند ہو جاتی تھیں‘ صرف کافی شاپس‘ ریستوران‘ پبز اور کلب رات دس بجے تک کھلتے تھے‘ گورے جلدی سونے اور صبح جلدی اٹھنے والے لوگ ہیں‘ یہ سات بجے ڈنر کر لیتے ہیں اور آٹھ بجے سو جاتے ہیں۔
میں بھی وہاں جلدی اٹھنے اور جلدی سونے کا عادی ہو گیا تھا‘ میں لاہور واپس آیا تو یہاں صورت حال بالکل مختلف تھی‘ شہر رات کے وقت جاگتا اور دن کو سوتا تھا لہٰذا میرے پاس دو آپشن تھے‘ میں ویانا کی روٹین جاری رکھتا یا پھر لاہوریا ہو جاتا‘ میں نے سوچا ‘میں اگر رات کو جاگ کر زیادہ پیسے کما لوں گا تو کیا فرق پڑ جائے گا۔میرے پاس اگر کروڑوں روپے بھی جمع ہو جائیں مگر میں نے اپنے خاندان کو وقت نہ دیا‘ میں اگر اپنی ماں کے پاؤں نہ دبا سکا‘ اپنی بیوی کے ساتھ گپ نہ لگا سکا‘ اپنے بچوں کا بچپن انجوائے نہ کر سکا اور اپنی نیند پوری نہ کر سکا تو پھر مجھے ان پیسوں کا کیا فائدہ ہو گا؟ میں کما لوں گا مگر میری زندگی تو اچھی نہیں گزرے گی چناں چہ میں نے لبرٹی میں ایک چھوٹا سا ویانا بنا لیا اور شان دار زندگی گزاری‘ میرے بچوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔
میری اور میری بیوی کی زندگی بھی اچھی گزری اور میں نے اپنے والدین کی بھی جی جان سے خدمت کی اور میں آخر میں پوری مارکیٹ کے مقابلے میں فائدے میں بھی رہا‘‘ میں نے پوچھا ’’وہ کیسے؟‘‘ وہ بولے ’’میں نے ساڑھے تین لاکھ روپے میں دکان خریدی تھی‘ میں نے وہ 33 کروڑ روپے میں فروخت کی لہٰذا اگر منافع میں کوئی کمی رہ گئی تھی تو وہ 33 کروڑ روپے کی شکل میں پوری ہو گئی۔
میرا کیا گیا؟‘‘وہ اس کے بعد رک کر بولے ’’بیٹا آپ لوگوں کو میری کہانی سنائیں اور انھیں بتائیں حکومت اگر رات آٹھ بجے دکانیں بند کرنا چاہتی ہے تو خدا کے لیے مزاحمت نہ کریں‘ اپنی صحت‘ اپنے خاندان اور اپنا سکون بچائیں۔
آپ اگر رات بارہ ایک بجے تک کام کرتے رہیں گے تو اس سے آپ کی صحت بھی تباہ ہو جائے گی اور آپ کا خاندان بھی‘ آپ نے اگر اپنے بچوں کو والد کی شفقت اور کیریئردونوں سے محروم کر دیا اور اس کے بدلے اگر آپ کو کھربوں روپے بھی مل گئے تو ان کا کیا فائدہ ہو گا؟ یہ دولت فساد کے سوا کیا ہو گی؟‘‘ وہ خاموش ہو گئے۔یہ بزرگ میرے ایک بیوروکریٹ دوست کے والد ہیں‘ حکومت نے پچھلے ہفتے رات آٹھ بجے دکانیں اور شاپنگ سینٹرز بند کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے بعد جب وہ ردعمل سامنے آنے لگا جو دہائیوں سے آ رہا ہے تو میرے دوست نے مجھے میسج کیا‘ میرے والد آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں‘ میں نے بڑے شیخ صاحب کو فون کیا اور اس کے بعد ان سے وہ گفتگو ہوئی جو آپ پڑھ چکے ہیں۔ میں تازہ تازہ جاپان سے واپس آیا ہوں۔
جاپان میں بھی شام سات بجے تمام دکانیں اور شاپنگ سینٹرز بند ہو جاتے ہیں ہاں البتہ ریستوران ساڑھے نو بجے تک کھلے رہتے ہیں‘ جاپانی مغرب سے پہلے ڈنر کر لیتے ہیں اور آٹھ بجے سو جاتے ہیں اور صبح پانچ ساڑھے پانچ بجے جاگ جاتے ہیں‘ یہ اٹھ کر ایکسرسائز کرتے ہیں‘ تیار ہوتے ہیں‘ ناشتہ کرتے ہیں اور دفتروں کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں۔جاپان میں دفتر نو بجے اسٹارٹ ہوتے ہیں مگر ملازمین ساڑھے آٹھ بجے دفتر پہنچ جاتے ہیں اور یہ آدھ گھنٹہ اپنا ڈیسک‘ اپنی ورک پلیس تیار کرتے ہیں ‘ اپنے جوتے‘ بیگ اور موبائل فون لاکر میں رکھتے ہیں اور ٹھیک نو بجے کام اسٹارٹ کر دیتے ہیں اور پھر شام پانچ بجے فیکٹری اور دفتر بند کر دیتے ہیں جب کہ دکانیں سات بجے بند ہوتی ہیں اور یہ روٹین صرف جاپان میں نہیں ہے بلکہ پوری جدید اور ترقی یافتہ دنیا صبح جلدی اٹھتی اور جلدی سوتی ہے۔دنیا کے 31 کامیاب اور ترقی یافتہ ملکوں میں دفتر اور کاروبار جلدی شروع ہوتے ہیں اور مغرب کے وقت بند ہو جاتے ہیں‘ ان ملکوں میں ناشتہ اور ڈنر بھی جلدی کر لیا جاتا ہے اور لوگ سو بھی بہت جلد جاتے ہیں‘ ترقی یافتہ ملکوں میں لوگ کھانا بھی سادا اور کم کھاتے ہیں‘ گھر بھی چھوٹے اور صاف ستھرے بناتے ہیں‘ صفائی پسند بھی ہوتے ہیں۔
ماحول بھی سبز اور کلین رکھتے ہیں اور سادگی پسند بھی ہوتے ہیں‘ جاپان ہر سال اوسطاً73 ہزارگیگاواٹ بجلی پیدا کرتا ہے‘ گھریلو صارفین اس کا صرف پانچ فیصد استعمال کرتے ہیں‘ دس فیصد بجلی کمرشل ایکٹوٹیز مثلاً دکانوں‘ شاپنگ سینٹروں‘ سائن بورڈز اور اسٹریٹ لائیٹس میں استعمال ہوتی ہے جب کہ باقی 85 فیصد بجلی صنعتیں اور کسان استعمال کرتے ہیں اور یہ جاپان کی معاشی ترقی کی اصل وجہ ہے جب کہ ہم بجلی کازیادہ تر حصہ ضایع کر دیتے ہیں اور آخر میں ہمارے پاس فیکٹریوں اور زراعت کے لیے بجلی نہیں بچتی اور یوں ہم قرض کی مے پی پی کر گزارہ کرتے رہتے ہیں۔آپ کسی گھر میں چلے جائیں آپ کو دن میں بھی لائیٹس جلتی دکھائی دیں گی اور دوسرا پورے ملک کے شاپنگ سینٹرز اور دکانیں رات بارہ بجے تک کھلی رہتی ہیں اور ان میں سو سو لائیٹس آن ہوتی ہیں اور یہ بجلی ہم فرنس آئل سے تیار کرتے ہیں۔
ہم ہر سال گاڑیوں میں بھی 12بلین ڈالر کا پٹرول پھونک دیتے ہیں چناں چہ پھر یہ ملک کیسے چلے گا‘ آپ ملک کو بھی گولی ماریں وہ لوگ جو آدھی رات تک دکانوں میں بیٹھے رہتے ہیں اور رات کا کھانا بارہ بجے کھاتے ہیں اور انھیں مہینہ مہینہ بچوں کی شکلیں نصیب نہیں ہوتیں ان بے چاروں کی کیا زندگی ہوگی چناں چہ آپ دیکھ لیں‘ ہم من حیث القوم بیمار لوگ ہیں۔ملک کے 70 فیصد لوگ بلڈ پریشر‘ اینگزائٹی‘ ڈپریشن اور شوگر کے مریض ہیں‘ ملک کے ہر شہر میں ہر سال ڈائلیسز مشینوں کی ضرورت دگنی ہو جاتی ہے‘ لوگوں کے رویوں میں بھی شدت ہے اور آپ مانیں یا نہ مانیں یہ سارے عذاب ہمارے لائف اسٹائل کی وجہ سے ہیں‘ ہم ایک گرم ملک ہیں۔
گرمیوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری تک چلا جاتا ہے لیکن ہم اس کے باوجود نو دس بجے کام شروع کرتے ہیں اور رات بارہ بارہ بجے تک مارکیٹوں میں مٹر گشت کرتے رہتے ہیں چناں چہ پھر صحت کیسے ٹھیک ہو گی‘ زندگی میں امن اور سکون کیسے آئے گا؟
میری درخواست ہے حکومت نے اگر ٹھیک فیصلہ کر لیا ہے تو یہ اس بار اس فیصلے پر عمل بھی کرائے‘ ہم ایک ہی بار طے کر لیں گرمیوں میں دفتر اور اسکول صبح 7 بجے کھولیں گے اور تین بجے بندکریں گے تاہم ملازمین مسلسل چھ گھنٹے کام کریں گے اور اسٹوڈنٹس بغیر رکے پڑھیں گے‘ تین بجے چھٹی ہو جائے اور دکانیں رات آٹھ بجے بند کر دی جائیں گی۔جس نے شاپنگ کرنی ہے وہ شام چھ سات بجے اپنا شوق پورا کر لے‘ رات نو بجے پٹرول پمپوں کے علاوہ سب کچھ بند ہوجائے گا تاکہ لوگ دس گیارہ بجے تک سو جائیں اوراگلے دن فریش اٹھیں‘ حکومت مہربانی فرما کر موبائل فونز کے نائٹ پیکیج بھی بند کرا دے‘ ان پیکیجز نے بھی ملک کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔اس سے بھی لوگوں کی صحت اچھی ہو جائے گی اور ان کے رویے بھی ٹھیک ہو جائیں گے‘ یورپ نے اس فارمولے سے ترقی کی جب کہ ہم اس روٹین سے الٹ چل کر اپنی اور اپنے ملک کی مت مار رہے ہیں لہٰذا پلیز آٹھ بجے کی حقیقت کو مان لیں‘ ملک اور لوگ دونوں بچ جائیں گے۔(بشکریہ ایکسپریس)