matiullah jan or pti

مطیع اللہ جان اور پی ٹی آئی

تحریر: ڈاکٹر فاروق عادل۔۔

بہت سی باتیں جمع ہوگئی ہیں جیسے فائنل کال اور اس کے بعد کے واقعات، لیکن پیشہ ورانہ نقطہ نظر سے مطیع اللہ جان کی گرفتاری کا واقعہ اہم ہے، ماریانہ بابر صاحبہ کے مطابق جنہیں لا پتا کردیا گیا تھا۔

مطیع اللہ جان ایک حوصلہ مند آدمی ہیں جنہوں نے ہمیشہ جرات مندی کے ساتھ منفرد انداز میں کام کیا۔ وہ ایک اچھے رپورٹر رہے ہیں۔ ڈان نیوز میں ہم لوگ کچھ عرصے تک ساتھی بھی رہے ہیں۔ وہ اسلام آباد میں کورٹ رپورٹنگ کیا کرتے تھے جب کہ میں ہیڈ کوارٹر یعنی کراچی میں ہوا کرتا تھا۔ اسی زمانے میں سپریم کورٹ کی کوئی خبر چنگھاڑتی ہوئی سرخیوں کے ساتھ ہم عصر ٹی وی چینلوں پر چل گئی۔ یہ محض اتفاق تھا یا مطیع اللہ جان کی احتیاط کہ انہوں نے وہ خبر فائل نہیں کی۔ ڈائریکٹر نیوز مبشر زیدی صاحب نے یہ دیکھ کرکہ ڈان نیوز کے سوا سارے میڈیا میں خبر موجود ہے، انہوں نے بھی اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے اس توقع کے ساتھ خبر نشر کردی کہ سب نشر کررہے ہیں تو درست ہی ہوگی جیسے ہی خبر نشر ہوئی، مطیع اللہ جان کا ردعمل آگیا اور انہوں نے اس خبر سے لاتعلقی ظاہر کردی، اس کے بعد انہوں نے کچھ دیر کے بعد خبر فائل کی۔ وہی خبر درست تھی، بعد میں دیگر چینلوں نے بھی مطیع اللہ جان ہی کی پیروی کی۔

اس پرانی یاد کو دہرانے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ درست رپورٹنگ کے ضمن میں ہمارا یہ ساتھی ایک زمانے میں کتنا محتاط ہوا کرتا تھا۔ ان کی یہ احتیاط پسندی بعد میں بھی تادیر برقرار رہی یہاں تک کہ سوشل میڈیا کا زمانہ آگیا۔ سوشل میڈیا کے ’تقاضے‘ ریگولر میڈیا کے مقابلے میں یکسر مختلف ہیں۔ اس میڈیم میں صحافی کا معروضی طور پر حقائق بیان کرنا یا غیر جانبدار رہنا مفید نہیں سمجھا جاتا۔ مقبولیت کی ضمانت کسی سیاسی فریق کی طرف جھکاؤ سے ملتی ہے۔ اب ریگولر میڈیا بھی اسی راستے پر چل نکلا ہے کیونکہ ہر دو پلیٹ فارم پر بہتر آمدن کے حصول کا آسان راستہ یہی ہے۔ مطیع اللہ جان کامیابی کا یہ نسخہ خوب جانتے ہیں اور اس کے تقاضے بھی پورے کرتے ہیں۔ ان پر تازہ افتاد بھی اسی لیے آئی ہے۔

ان کا یہ دعویٰ غلط ثابت ہوا کہ رینجرز کے اہلکار رینجرز کی گاڑیوں تلے ہی کچلے گئے۔ اپنے اس دعوے کی حمایت میں انہوں نے جس شخص کو پیش کیا، اس نے بھی ان کے دعوے کی تردید کردی۔ اسی طرح انہوں نے وزارت اطلاعات کے مستعفی ہونے والے ایک اہلکار کے حوالے سے بلیو ایریا میں سینکڑوں ہلاکتوں کا دعویٰ کیا۔ (یہ صاحب سندھ کے ایک سیاسی خاندان کے چشم و چراغ ہیں، ملازمت جن کی قطعی ضرورت نہیں) یہ دعویٰ بھی درست ثابت نہیں ہوا۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ ان کی طرف سے سامنے آنے والی یہ اطلاعات لائیکس اور مقبولیت کے حصول کی کوشش تھی۔

بعض صحافیوں کی طرف سے اس قسم کے طرز عمل کی ایک وجہ اور بھی ہے۔ نہیں معلوم کہ ہمارے یہاں یہ کیوں سمجھا جانے لگا ہے کہ صحافی کی ذمے داری حکومت وقت کی مخالفت اور حزب اختلاف کی حمایت ہے۔ ہمارے اکثر ساتھی حکومت بدلنے کے ساتھ اپنا طرز صحافت بھی بدل لیتے ہیں جس کی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ صحافت اور صحافی کے واچ ڈاگ ہونے کا تصور بھی صحافت کے مسلمہ اصولوں کے منافی ہے۔ سموئیل پی ہنٹنگٹن اور بعض دوسرے مفکرین کے نزدیک خود ساختہ واچ ڈاگ بن جانے سے جمہوری عمل کمزور ہوتا ہے۔ کچھ دوسرے مفکرین کے مطابق ریاست بھی کمزور ہوتی ہے۔ یہ مفکرین حکومت پر تنقید کا راستہ بند نہیں کرتے بلکہ اس قسم کی مہم جوئی کو نا پسندیدہ قرار دیتے ہیں جس پر کسی خاص فریق کی طرف جھکاؤ کا گمان گزرے۔

اس بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ مطیع اللہ جان کی گرفتاری آزادی صحافت کا مسئلہ تو ہے لیکن ذرا مختلف انداز میں۔ ان صحافتی نظریات کے مطابق یہ تاثر درست نہیں کہ ہمارے اس دوست کا حق سلب ہوا ہے۔ سبب یہ ہے کہ اگر کوئی صحافی یا صحافتی ادارہ کسی بھی وجہ سے کسی مؤقف کی جانب جھکاؤ کا راستہ اختیار کرتا ہے تو دراصل یہ عمل آزادی صحافت کے لیے نہیں بلکہ صحافت اور صحافیوں کی معیشت کے لیے بھی خطرہ بن جاتا ہے کیونکہ نظریہ ابلاغی اضطراب کے مطابق جھکاؤ کے ذریعے حاصل کی ہوئی مقبولیت پانی کا بلبلا ثابت ہوتی ہے اور بالآخر متعلقہ صحافتی آؤٹ لیٹ یا میڈیم کے زوال کا باعث بن جاتی ہے۔ ہماری صحافت کا بنیادی مسئلہ یہی ہے۔

مطیع اللہ جان کی گرفتاری کے بعد ان کے ساتھ ایک زیادتی بھی ہوئی ہے جس کے خلاف آواز اٹھانا ضروری ہے۔ پولیس نے مقدمہ درج کرتے ہوئے ان پر آئس (نشہ آور مواد) ڈال دی ہے یا دہشت گردی اور ہنگامہ آرائی کا الزام لگایا ہے، یہ غلط ہے۔ وہ ایسی کسی کمزوری کا شکار نہیں ہیں۔ ان پر جو الزام ہے، اسی کے تحت مقدمہ درج ہونا چاہیے اور اگر وہ خود کو بے گناہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو انہیں فی الفور رہا کردیا جائے۔

مطیع اللہ جان آزمائش میں آئے ضرور ہیں لیکن اس آزمائش نے دو مواقع بھی فراہم کیے ہیں۔ ایک موقع تو یہ ہے کہ خود ان کی حمایت میں مسلم لیگ ن کے اندر سے آوازیں بلند ہوئی ہیں۔ ان میں ایک سینیئر صحافی عرفان صدیقی ہیں جنہوں نے کہا ہے کہ مطیع اللہ جان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اس کی کبھی تائید نہیں کرسکتے۔ انہوں نے یہ کہنا بھی ضروری سمجھا کہ یہ طرز عمل مسلم لیگ ن کی حکومت کے لیے قابل فخر نہیں۔ رانا ثنا اللہ خان نے بھی ان کے خلاف کارروائی کی مذمت کی ہے۔ مطیع کے حق میں اٹھنے والی یہ آوازیں ان کے لیے اعزاز ہیں۔

دوسرا موقع مین اسٹریم اور سوشل میڈیا صحافیوں کے لیے پیدا ہوا ہے۔ اس موقع کا تعلق ہر دو طرح کی صحافت کے لیے اعتبار پیدا کرنے کا ہے۔ یہ اعتبار صرف اور محض غیر جانب داری سے ہی پیدا ہوسکتا ہے۔ مہم جوئی اور جھکاؤ والا طریقہ کار صحافت کے لیے مفید نہیں ہے۔ صحافت صرف وہی ہے جس کی بنیادیں عالمی سطح پر اور غیر متنازع طور پر طے شدہ ہیں۔ جب کوئی بلکہ جو کوئی بھی ریٹنگ یا بہتر معاوضے کے لیے ان بنیادوں کو منہدم کرےگا، اپنی اور صحافت دونوں کی ساکھ کو نقصان پہنچائے گا جس کے نتیجے میں بالآخر ہر قسم کی صحافت کی معیشت منفی طور پر متاثر ہوگی اور صحافی بے روزگار ہوں گے۔ بہتر ہوگا کہ اب ہماری برادری ٹھنڈے دل سے اس معاملے پر غور کرے اور صحافتی سرگرمی میں داخل ہو جانے والے منفی رویوں کا خاتمہ کردے۔(بشکریہ وی نیوز)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں