تحریر: سید بدرسعید۔۔
میرے سکہ بند صحافیوں کو شاید یہ تحریر بری لگے ، چند ایک کو غصہ بھی آئے گا اور کچھ مجھے برا بھلا بھی کہیں گے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ سوال جواب حاصل کرنے کے لئے ہی اٹھائے جاتے ہیں اور مکالمہ ہی نئی راہیں ترتیب دیتا ہے ۔
یہ سوال یونیورسٹی کے زمانے سے ذہن کے دریچوں پر دستک دیے جاتا ہے لیکن مناسب جواب ابھی تک نہیں مل سکا ۔ ہمارے یہاں پریس کلب ، یوجیز اور دیگر صحافتی تنظیموں یا کلبس میں ممبر شپ یا ان کی جانب سے صحافی ہونے کا کریڈیٹ صرف خبروں سے منسلک شعبوں کو دیا جاتا ہے یا یہ کہہ لیں کہ رپورٹر اور سب ایڈیٹرز کو ہی صحافی مانا جاتا ہے ، کہیں کہیں البتہ نیوز پروڈیوسرز کو بھی صحافی تسلیم کر لیا گیا ہے۔ پریس کلبس کی ممبر شپ کے اہل انہی شعبوں سے منسلک لوگ سمجھے جاتے ہیں ۔اس میں بھی اکثر جگہوں پر نیوز اینکرز کو “صحافی شپ” کے درجے سے نکال دیا جاتا ہے ، پروگرام اینکرز کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کالم نگار دور دور تک اس لسٹ میں شامل نہیں اور ای میڈیا کو تو ابھی تک قریب پھٹکنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی ۔
دنیا ماس کمیونی کیشن سے بھی آگے نکل رہی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں پریس کلبس ابھی تک ماس کمیونی کیشن کے ایک حصہ جرنلزم سے باہر نہیں نکل پائے ۔ یہی وجہ ہے کہ پریس کلبس کی ممبر شپ سے لے کر کمیونیکیشن کی دیگر فیلڈز تک ایک ایسا ابہام موجود ہے جو حل نہیں ہو پایا ۔ اس کے لئے ہمارے سینئرز کو بیٹھ کر کوئی لائحہ مل ترتیب دینا ہو گا اور ممکن ہو تو پریس کلبس اور یونین کے آئین میں آئینی ترمیم لانی ہو گی۔ مثال کے طور پر تاحال پبلک ریلیشنگ اور ایڈورٹائزنگ کو ہمارے صحافتی ورکرز کے ادارے اپنا حصہ نہیں سمجھتے ۔ ان شعبوں سے منسلک افراد کو پریس کلبس اور یونین کا حصہ نہیں بنایا جاتا اور نہ ہی صحافی بننے کے خواہش مند افراد کو ان شعبوں کی جانب متوجہ کیا جاتا ہے ۔
دوسری جانب سوال یہ ہے کہ اگر یہ شعبے صحافت کا حصہ نہیں تو پھر تعلیمی اداروں میں صحافت کے نصاب میں ان سے متعلق مضامین کیوں شامل ہیں اور ماس کمیونی کیشن ڈیپارٹمنٹ ان شعبوں میں مقالہ لکھنے والوں کو صحافت کی ڈگری کیوں جاری کرتے ہیں اور سرکار اس ڈگری کو صحافت کی ڈگری کیوں مانتی ہے ؟اس پر کسی صحافی راہنما ، تنظیم یا گروپ نے سرکار سے بات کیوں نہیں کی ؟
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ صحافی کالونی کے طور پر صحافیوں کو جو پلاٹ الاٹ ہوتے ہیں اس میں انفارمیشن گروپ(پبلک ریلیشن آفیسرز) کے سرکاری ملازمین کا بھی کوٹہ رکھا جاتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے ۔ یا تو انہیں صحافی تسلیم کرنا چاہئے یا پھر اس کوٹے پر صحافیوں کو اسٹینڈ لینا چاہئے تھا۔ یہ درمیانی راستہ مزید ابہام پیدا کرتا ہے ۔
اسی طرح ایڈورٹائزنگ ماس کمیونی کیشن کا وہ شعبہ ہے جس کی وجہ سے کسی بھی میڈیا ہاوس سے منسلک ورکرز کو تنخواہیں ملتی ہیں یا ان کی تنخواہوں کا بوجھ اس شعبے کے ذمہ ہوتا ہے اور اب تو اکثر پبلک ریلیشن آفیسرز کی بنائی خبریں اور ٹیکرز کسی تبدیلی یا ترمیم کے بنا بطور خبر نشر ہوتی ہیں ۔ اسی طرح نیوز چینل پر چلنے والے پروگرامز کے پروڈیوسرز کو صحافی تسلیم نہ کرنا یا نیوز کاسٹر و پروگرام اینکرز کو صحافت کی صف سے نکال دینا بھی عجیب معاملہ ہے ۔۔
یہاں یہ بھی اہم ہے کہ کئی نیوز پروڈیوسرز کو پریس کلبس کی ممبر شپ ملی لیکن کچھ عرصہ بعد ان کو پروگرام پروڈیوسر بنا دیا گیا کیونکہ اداروں میں ایسی تبدیلیاں معمول کا حصہ ہیں ۔ اب وہ کلب کے ممبر تو ہوتے ہیں لیکن جس اصول کے تحت پروگرام پروڈیوسرز کو ممبر نہیں بنایا گیا تھا وہ اصول تو ٹوٹ گیا ۔اسی طرح سکرپٹ یا کانٹنٹ کے شعبے سے منسلک لوگوں کو بھی عموما صحافی تسلیم نہیں کیا جاتا ۔ اسے تنگ نظری کہہ لیں یا پھر وہی بات ہے کہ الیکٹرانک میڈیا آنے کے بعد پرنٹ میڈیا کے دور میں بنے پریس کلبس کے آئین میں ترمیم نہیں کی جا سکی ۔
اب ہم ای میڈیا کے دور میں داخل ہو چکے ہیں لیکن ہمارے ادارے ابھی تک الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے ہی واضح لائحہ عمل نہیں بنا پائے ۔ اس وقت مختلف ویب سائیٹس ، یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے انتہائی سینئر صحافی منسلک ہو چکے ہیں ۔مارکیٹنگ کانٹنٹ لکھنے والوں میں بھی ہمارے کئی سینئرز کا شمار ہوتا ہے ۔ ایڈورٹائزنگ کے شعبے میں بھی جید صحافی شریک ہیں ۔
یہ سب کلبس اور یونین کا حصہ ہیں لیکن جو نیا طالب علم براہ راست پروڈکشن ، ایڈورٹائزنگ ، پبلک ریلیشنگ یا ای میڈیا کے شعبے میں آ جائے اس کے لئے صحافتی تنظیموں اور کلبس کے ادارے بند کر دیے جاتے ہیں ۔ کیا یہ ہماری منافقت نہیں ۔
اب مزے دار بات سنیئے کہ موجودہ میڈیا بحران بھی انہی شعبوں پر آیا ہے جو اپنے سوا کسی دوسرے شعبے کو صحافی تسلیم نہیں کرتے اور ان کی نسبت پی آر ، ایڈورٹائزنگ اور ای میڈیا پر روزگار کے نئے دروازے کھلے ہیں جس وجہ سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے بہت سے “صحافی ” انہی شعبوں میں قدم رکھ چکے ہیں ۔ ڈیجیٹل پی آر ، یوٹٰیوب چینلز ، ویب سائیٹس اور دیگر پلیٹ فارمز تیزی سے اپنے آپ کو منوا رہے ہیں لیکن تاحال کلبس اور یوجیز کے آئین اور قوانین کو دور حاضر کے مطابق نہیں ڈھالا جا سکا البتہ ایک خاموشی کا سہارا لے کر اس خلا اور ابہام کو ضرور بڑھایا جا رہا ہے ۔
اب وقت آ گیا ہے کہ اس بارے میں بھی سوچنا چاہئے تاکہ طالب علموں کی اگلی کھیپ کے ساتھ ساتھ میڈیا بحران میں روزگار کے لئے ان شعبوں کو اپنانے والوں کو بھی حوصلہ ملے۔ یہ صحافتی اتحاد کی بھی علامت ہے ورنہ جس طرح پریس کلب ، یوجیز کے دفاتر کے ساتھ ساتھ چینلز کے مختلف شعبوں کے “سینٹرز” ، “کونسلز” اور سٹنگ پوائنٹ بنتے جا رہے ہیں یہ اس کمیونٹی کو مزید تقسیم کر دے گا ۔
سوال یہ بھی ہے کہ فنڈز کی اس تقسیم سے نقصان کس کا ہو رہا ہے اور اتحاد کس کا کم ہوتا ہے؟ آخر کیوں پی آر او ، میڈیا سیلز ، رپورٹر ، ایڈیٹرز ، پروڈکشن ، ایڈورٹائیزر، کانٹنٹ ، کری ایٹیوز اور دیگر شبوں کے لوگ ایک جگہ بیٹھ نہیں سکتے حالانکہ اس سے سبھی کے لئے نئے مواقع جنم لیں گے ورنہ جس بحران کا سامنا ہے اس میں فنڈز ، مراعات اور روزگار کی تقسیم مزید بحرانوں کو فروغ دے گا۔
ہمارے بہت سے ساتھی اپنے تجربے ، علم اور صلاحیتوں کی بنیاد پر ماس کمیونی کیشن کے دیگر شبوں میں دوسرے کئی لوگوں سے زیادہ اچھے نتائج دینے اور پیسے کمانے کی اہلیت رکھتے ہیںلیکن اسی ابہام کی وجہ سے تاحال مشکلات کا شکار ہیں ، کسی کو صحافی کالونی میں کئی سال سے لٹکے اپنے پلاٹ کے کھو جانے کا ڈر ہے تو کوئی کسی اور مصلحت کا شکار ہوا جاتا ہے اور یہی چیز ان کے مسائل میں اضافے کی وجہ بھی بن رہی ہے ۔
ہمارے سینئرز کو اس ساری صورت حال پر مل بیٹھنا ہو گا اور اگر یہ طے پا جائے کہ کوئی شعبہ صحافت سے منسلک نہیں تو پھر سرکار اور ایچ ای سی سے مل کر اس سے متعلقہ مضامین کو ماس کمیونی کیشن کے شعبے سے ختم کروانا چاہئے اور ان کا الگ شعبہ قائم ہونا چاہئے تاکہ طلبا کو علم ہو کہ ان شعبوں میں مہارت حاصل کر کے وہ صحافت کا حصہ نہیں بنیں گے بلکہ کسی اور شبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوائیں گے وگرنہ ان شعبوں میں جانے والے صحافت کے طالب علموں کو بھی صحافتی کلبس ، یونین اور تنظیموں میں شریک کیا جائے (سید بدر سعید)