likhne walo ke masail | Hammad Raza

ماس کمیونیکیشن کے جدید رحجانات

تحریر. حماد رضا

ابلاغ انسان کی بنیادی ضرورت ہے جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو ابلاغ کا عمل شروع ہو جاتا ہے وہ رو کے ابلاغ کا عمل سر انجام دیتا ہے اور اپنے اردگرد موجود لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح جہاں ابلاغ کی وسیع بنیادوں پر بات کی جاۓ یا اکیڈمک اصطلاح کی بات کی جاۓ تو اسے ہم ماس کمیو نیکیشن کہتے ہیں آج کے جدید دور کو میڈیا کا دور کہا جاتا ہے جس کو مدّ ِ  نظر رکھتے ہوۓ طلباء کی ایک بہت بڑی تعداد ملکی یو نیورسٹیوں میں ماس کمیونیکیشن میں داخلہ لیتی ہے لیکن یہاں پر ایک سوال ذہن میں گردش کرتا ہے کہ کیا ہمارے ملک کی یو نیورسٹیوں میں پڑھایا جانے والا نصاب آج کل کے جدید تقا ضوں کے مطابق ہے ما ضی میں میں خود بھی ابلاغیات کا طالبعلم رہا ہوں اور اب بھی خود کو طالبعلم ہی سمجھتا ہوں تو اس حوالے سے اگر اپنے آ پ سے مندرجہ بالا سوال کا جواب لیا جاۓ تو جواب نا میں ملتا ہے اس ٹاپک پے استادِ  محترم جناب مغیث الدین شیخ مرحوم نے اپنے ایک انٹرویو میں ارشاد فرمایا تھاکہ پاکستان میں ماس کمیو نیکیشن کے طلباء کی نصاب میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے جو کتابیں ایم اے کی سطح پر پڑھائ جاتی ہیں انھیں گریجوایشن کی سطح پر پڑھایا جاۓ پہلے پہل میڈیا میں پر نٹ میڈیا اور الیکٹرانکمیڈیا  کی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی لیکن گزرتے وقت کے ساتھ اب ایک نئ اصطلاح نے جنم لیا ہے جسے ڈیجیٹل میڈیا کہا جاتا ہے یہا ں یہ بات بھی گوش گزار کرتا چلوں کے میں نے بہت سی یو نیورسٹیز کے نصاب کا جائزہ لیا لیکن کوئ بھی یو نیورسٹی ڈیجیٹل میڈیا کو ایک علیحدہ مضمون کی حثیت سے اہمیت دیتی نظر نہیں آتی آجکل میڈیا کی بد حالی کی کہانیاں روز سننے کو ملتیں ہیں بڑے بڑے چینلز کے اینکر یو ٹیوب چینلز کا سہارہ لیتے نظر آتے ہیں اس بد حالی کو دیکھتے ہوۓ ڈیجیٹل میڈیا کو تفصیلی طور پر بحثیت ایک الگ مضمون کے شامل کرنے کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے جس میں طلباء کو ڈیجیٹل میڈیا یو ٹیوب پر چینل بنانے اور اس کی پر موشن کرنے جیسی مہارتیں سکھائ جا سکتی ہیں تا کہ میڈیا الیکٹرانک میڈیا کی ڈاؤن سائزنگ سے بچا جا سکے اور طلباء اپنے روزگار کا خود بندوبست کر سکیں۔۔(حماد رضا)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں