تحریر: فرحان خان
ڈکٹیٹرمشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو نجی میڈیا ہاوسز ایک دَم سے اُگے اور پھیل گئے۔ برسوں دشت صحافت میں آبلہ پائی کرنے والے کچھ لوگوں کو پہلی بار روشنی کی کِرن دکھائی دی ۔ پُرانوں کو شروع میں کُھلی اسپیس ملی ، جن کا الیکٹرانک میڈیا کا پس منظر نہیں تھا ، وہ بھی ٹریننگ کے بعد کیمرے کا سامنا کرنے کے قابل ہو گئے ۔ کچھ تو واقعی کامیاب ٹھہرے۔ اس انڈسٹری کے لوگوں کا لائف اسٹائل بدلا۔ شروع میں تو کچھ خاص فرق نہیں پڑا لیکن جب ایکسپریس میڈیا ہاوس نے انٹری ماری تو حالات اور بھی اچھے ہو گئے۔ کارپوریٹ لائف اسٹائل نے جگہ بنا لی۔ کئی ورکنگ کلاسیے دیکھتے ہی دیکھتے ایلیٹ کلاس کا حصہ بن گئے ، شہرت اس پر مستزاد تھی۔
اس بیچ ہوا یہ کہ لوگوں نے ٹی وی پر بولنے والے اینکروں ہی کو صحافی سمجھنا شروع کر دیا اور یہ بھی باور کر لیا کہ یہ سب سے کامیاب اور آسودہ حال لوگ ہیں۔بہت سے لوگ اسی اثر کے تحت اپنے بچوں کو ماس کمیونیکیشن کی ڈگریاں کروانے لگے ۔ بعض نوجوان تو خود اس شعبے کو اختیار کرنے لگے۔ مقصد تھا اینکر بننا۔ آپ یونیورسٹیوں کے ماس کمیونیکشن کے طلبہ و طالبات سے بات کریں تو 80 فی صد یہی جواب دیں گے کہ ہم اینکر بننے کے لیے ماس کمیونیکشن پڑھ رہے ہیں ۔ صحافت گویا اینکر شپ میں سمٹ کر رہ گئی۔ دراصل یہ شاٹ کٹ تھا جس میں شہرت جلد ملنے کا امکان تھا اور مناسب تنخواہ بھی ۔صحافت البتہ ایک الگ نیچر کی جاب ہے ۔ یہ دیگر پرائیوٹ نوکریوں کی طرح بالکل نہیں ۔ صحافی کو خبر دینا ہوتی ہے اور اسے قارئین تک پہنچانے کے عمل کا حصہ بھی بننا ہوتا ہے ۔ اس عمل کے دوران کچھ اصول ایسے ہوتے ہیں جن پر صحافی کو ہر صورت اسٹینڈ لینا ہوتا ہے۔ ری زسٹ کرنا ہوتا ہے اور کسی بھی موقف پر ڈٹ جانے کی قیمت ضرور ہوتی ہے جو بہرحال ادا کرنا ہوتی ہے۔ صحافت کے میدان میں قدم رکھنے سے پہلے یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے ۔
اب تو بہت سے اور بھی میڈیا ہاوسز کھل چکے ہیں۔ صحافتی پس منظر کے ادارے رفتہ رفتہ منظر سے غائب ہو رہے ہیں۔ طاقت کے اصل مراکز پر سوال اٹھانے کی گنجائش کم ہو رہی ہے۔ مانیٹرنگ بڑھ رہی ہے ۔ نئے ضابطے زیر غور ہیں۔ نئی ”انقلابی” حکومت کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ ”ہمیں نیوز سے زیادہ انٹرٹینمنٹ چینلز کی ضرورت ہے” ، اس جملے نے اس حکومت کے عزائم واضح کر دیے تھے ۔ اس وقت میڈیا انڈسٹری کے کارپرداز بتا رہے ہیں کہ یہ شعبہ شدید مالی بحران کا شکار ہے ۔ چند ماہ میں سیکڑوں لوگ ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور کئی لوگوں کے سروں پر تلوار لٹک رہی ہے۔ اس وقت ملک بھر کی کئی یونیورسٹیوں میں ماس کام کے شعبے میں ہزاروں طلبہ وطالبات زیرتعلیم ہیں ۔ جن خدشات کا اظہار نئے پاکستان کے وزیراطلاعات فواد چوہدری کر رہے ہیں ، اگر وہ سچ ثابت ہوئے تو ان ہزاروں طلبہ کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔ چند سو لوگ تو پبلک ریلیشن کے شعبے میں چلے جائیں گے ، کچھ تدریس میں ، باقی اتنی بڑی تعداد کہاں کھپے گی ؟ یہ سوچنے کی بات ہے۔اس شعبے کی چکا چوند دیکھ کر بہت سے نوجوان اِدھر مائل ہوئے تھے لیکن جب بعض سینئر صحافیوں کو اپنے بچوں کو یہ نصیحتیں کرتے دیکھتا ہوں کہ ”بیٹا اب اِدھر کچھ نہیں” تو ان کے بارے میں فکر ہوتی ہے جو بھیڑ چال کا شکار ہیں اور انہیں اچھا مشورہ دینے والا کوئی نہیں۔
تو بھائیو! نئے پاکستان میں خبر سے زیادہ انٹرٹینمنٹ کی ضرورت بتائی جا رہی ہے، سوصحافت کی بجائے فنون لطیفہ کے شعبوں خصوصاً پرفارمنگ آرٹ کی جانب توجہ دیں ۔ شاید وہاں کچھ کھپت ممکن ہو سکے۔ (فرحان خان)