تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،ایک حالیہ سروے میں یہ حیران کن انکشاف سامنے آیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں 41 فیصد گھرانوں میں نسوار استعمال کی جاتی ہے۔گیلپ سے وابستہ بلال گیلانی نے اپنے ایک ٹویٹ میں بتایا کہ ’حیران کن طور پر خیبر پختونخوا میں 41 فیصد گھرانے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ نسوار کی خریداری پر رقم خرچ کرتے ہیں۔گیلپ ہی کے ایک اور سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ پاکستان کے 59 فیصد لوگوں کے پاس موٹر سائیکل موجود ہے۔ شہروں میں موٹرسائیکل کی ملکیت کی شرح دیہاتی علاقوں کی نسبت 14 فیصد زیادہ ہے۔ اخبار میں خبریں تو آپ لوگ پڑھتے ہی رہتے ہیں،ہم بھی پڑھتے ہیں لیکن ہماری نظریں ہمیشہ منفرد قسم کی خبروں پر جاکر ٹھہرتی ہے۔۔ خیبرپختونخوا کے لوگ بہت ہی معصوم ہوتے ہیںیا شاید ہمیں ایسا لگتا ہے، ہمیں ایسا کیوں لگتا ہے؟ اس کی شاید یہ وجہ بھی ہوکہ ہمارا تعلق بھی خیبرپختونخوا سے ہی ہے۔۔ اور ہمارے قریبی احباب ہمیں معصوم ہی کہتے ہیں۔۔ کیوں کہ جو چالاکی اور مکاری اس دنیا میںرہنے کے لیے اور ترقی کرنے کے لیے ازحد ضروری ہے وہ ہمارے اندر سے ایسے غائب ہے جیسے موجودہ حکومت کے دورمیں عوام کا سکون غائب ہے۔۔ ہمارے محترم باباجی تو کورونا وائرس سے شدید پریشان ہیں، کہتے ہیں ، یار یہ وائرس کب جان چھوڑے گا؟؟ بار بار ہاتھ دھونے اور SOP پر عمل کرنے کی وجہ سے اب چھوٹی دکانوں والوں اور ریڑھی والوں کے ہاتھوں میں وہ ذائقہ نہیں رہا۔۔ ہمارے پیارے دوست کا خیر سے رشتہ طے پاگیا ہے۔۔ یہ رشتہ کیسے ہوا؟ اس کی رودار انہوں نے ہمیں واٹس ایپ کی ہے۔۔ لکھتے ہیں کہ۔۔گھر والے میرے لیے رشتہ دیکھنے گئے،ساتھ میں بھی تھا اور مجھے چپ چاپ بیٹھے رہنے کو کہا!تو لا پرواہی سے بیٹھا چیونگم چبا رہا تھا، لڑکی کے باپ کو یہ حرکت ناگوار گزری۔۔پوچھا، یہ کیا حرکت کر رہے ہو، کیوں چباتے ہو یہ چیونگم؟؟۔۔میں نے کہا، بس جی، تب چباتا ہوں جب سگریٹ پی بیٹھوں۔۔لڑکی کے باپ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے پھر پوچھ لیا۔۔تو تم سگریٹ بھی پیتے ہو؟ ۔۔میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔بس جی جب شراب پیئوں تو تب ہی سگریٹ پیتا ہوں۔۔ لڑکی کے باپ کو ایک بارپھر حیرت کا دھچکا لگا۔۔پھر سے سوال کرڈالا؟؟تو تم شراب بھی پیتے ہو؟ ۔۔ میں نے جواب دیا، جی، بس اسی دن پیتا ہوں جس دن جوا ہار کر آؤں۔۔لڑکی کے باپ نے پوچھا، تو تم جوا بھی کھیلتے ہو؟۔۔میں نے کہا، بس جی، جب سے جیل سے آیا ہوں تب سے یہ عادت پڑی ہے۔۔لڑکی کے باپ نے حیرت سے کہا، تو تم جیل بھی جا چکے ہو کیا؟میں نے کہا، بس جی، وہ ایک قتل ہو گیا تھامجھ سے۔۔لڑکی کے باپ نے دوبارہ حیرت سے پوچھا، تو تم قاتل بھی ہو، کیوں قتل کیا تھا؟۔۔میں نے کہا، بس جی، ایک گھر میں رشتہ دیکھنے گئے تھے، لڑکی کا باپ سوال بڑے پوچھتا تھا۔۔لڑکی کے باپ کے چہرے کا رنگ فق سے ہوگیا، جلدی سے ہنستے ہوئے کہنے لگا۔۔ تو آپ منہ میٹھا کیجیے مجھے یہ رشتہ منظور ہے۔۔ ذکرہورہا تھا معصوم لوگوں کا۔۔میاں بیوی اپنی شادی کی پچاسویں سالگرہ پر اپنا اسکول کا دور یاد کررہے تھے۔۔دونوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے اسکول جائیں گے اور بچپن کے پیار کی یادیں تازہ کریں گے۔وہ دونوں اسکول گئے، وہ بینچ دیکھا جس پر پچاس سال پہلے دونوں نے مل کر آئی لو یو لکھا تھا۔۔پیدل واپس آ رہے تھے کہ ایک آرمر گاڑی میںسے ایک تھیلا گرا،خاتون نے اٹھا لیا، وہ تھیلا گھر لے آئے، کھول کر دیکھا تو اس میں 50 ہزار ڈالر تھے۔۔خاوند نے کہا، ہمیں یہ تھیلا واپس کر دینا چاہیے۔۔بیوی بولی۔۔لبھی شئے خدا دی۔۔اور چوبارے میں چھپادیا۔۔دوسرے دن پولیس پہنچ گئی اور اس بوڑھے جوڑے سے پوچھا کہ۔۔ آپکو کوئی تھیلا ملا؟۔۔بیوی نے صاف انکار کردیا۔۔خاوند کہنے لگا۔۔یہ جھوٹ بولتی ہے، تھیلا اوپر چوبارے پر ہے۔۔ خاتون جلدی سے بولی۔۔ اس کا دماغ ٹھیک نہیں رہا، اسکا ذہن اس کے بچپن میں چلا گیا ہے، یہ سکون آور ادویات لیتا ہے۔۔اب پولیس والے تفتیش کرنے رک گئے اور خاوند سے سوال کیا۔۔ آپ تفصیل سے بتائیں تھیلا کب، کیسے اور کہاں ملا؟۔۔خاوند نے ٹھہر ٹھہرکر بولنا شروع کیا۔ ۔ کل میں اور میری بیوی ا سکول سے آ رہے تھے۔۔۔’’چل اوئے بابا واقعی پاگل جے‘‘۔۔ایک افسر نے بوڑھے خاوند کی بات کاٹتے ہوئے کہا اورخاتون کا شکریہ اداکرتے ہوئے چلے گئے۔۔ باباجی ہماری طرح بہت ہی معصوم انسان ہیں۔۔بس میں سوار تھے، ساتھی مسافر نے وقت گزارنے کے لیے ان سے سوال کرڈالا۔۔ کہاں کے ہو؟؟۔۔باباجی نے ٹھنڈی آہ بھرکرکہا۔۔ ہمارا بیاہ ہو گیا ہے اور اب ہم کہیں کے نہیں رہے۔۔باباجی کا فرمان عالی شان ہے۔۔ہم ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں سچ بولنے کے لیے فیک آئی ڈی بنانی پڑتی ہے۔۔ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ ۔۔ کچھ لڑکیاں ایسی معصوم ہوتی ہیں کہ روزانہ اپنے محبوب سے پانچ گھنٹے کال پر بات کرنے کے بعد بھی کہتی نظر آتی ہیں کہ ۔۔جان ،ہماری فیملی بہت سخت ہے ۔۔باباجی کاکہنا ہے کہ۔۔اگر عورتوں کو لگتا ہے مرد ان پہ ظلم کرتے ہیں تو بطور ماں اپنے بیٹوں کی بہتر تربیت کریں۔بات معصوم کی ہورہی تھی۔۔گھر میں اگر زیادہ بہن بھائی ہوں تو ہر گھر میں ایک ایسا معصوم ضرورہوتاہے جو اپنی چیز جلدی جلدی کھا کر دوسروں سے مانگنے بیٹھ جاتا ہے۔۔ہمارے پیارے دوست بھی ہماری طرح ہی معصوم ہیں۔۔ان کے بچپن کا سچا واقعہ ہے کہ ۔۔گھر آئے ان کے والد کے دوست نے کہا۔۔ بیٹا،پاپا کی نقل اتارکردکھاؤ ہمیں؟؟۔۔ہمارے پیارے دوست جلدی سے زمین لیٹ گئے اور رونے کی اداکاری کرتے ہوئے کہنے لگے۔۔۔بس ایک دفعہ چھوڑ دو بیگم پلیز خدا کا واسطہ۔۔ ڈور بیل بجی، مسز شگفتہ نے دروازہ کھولا تو انہوں نے دیکھا کہ سامنے ان کی دوست مسز نجمی کھڑی تھیں۔۔مسزشگفتہ نے اپنی عزیزجان دوست کا والہانہ استقبال کیا، دونوں ایک دوسرے سے گلے ملیں اور ایک دوسرے کا حال احوال دریافت کیا۔۔مسزنجمی بولیں۔۔اری شگفتہ یہ عبایا کیوں پہن رکھا ھے کیا کہیں جا رہی تھی؟؟۔۔شگفتہ نے جواب دیا۔۔ارے نہیں آپی یہ تو محلے والیوں سے تنگ آ کر سارا دن یہ عبایا مجھے پہن کر رکھنا پڑتا ہے۔۔مسزنجمی نے حیرت سے عبایاپہننے کی وجہ پوچھی؟ شگفتہ بولی۔۔ ارے آپی یہ محلے والیاں روز آ کر بیٹھ جاتی ہیں خود تو فارغ ہوتی ہیں مجھے بھی باتوں میں لگا کر میرا وقت ضائع کرتی ہیں!اس کا حل اب میں نے یہ نکالا کہ سارا دن یہ عبایا پہن کر رکھتی ہوں۔۔جس سے میں ملنا چاہوں اور باتیں کرنا چاہوں تو اس سے کہتی ہوں۔۔ آیئے باجی، میں ابھی بازار سے واپس آئی ہوں۔۔ آیئے آیئے میں آپ کو ہی یاد کررہی تھی۔۔اور جس سے نہ ملنا چاہوں تو اس کو دروازے سے ہی ٹرخادیتی ہوں کہ۔۔باجی آپ پھر کبھی آئیے گا ابھی تو میں بازار جا رہی ہوں۔۔اسے کہتے ہیں معصوم عورت۔۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔آگے بڑھنا اچھی بات ہے لیکن آگے بڑھنے کے لیے انسان کو سازش کی نہیں بلکہ کاوش کی ضرورت ہوتی ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔