ata ul haq qasmi or khuaja anderson

مسعوداشعر۔۔

تحریر: امجد اسلام امجد

کورونا کے کیسز میں کمی کے ساتھ ساتھ اہلِ علم  وفن کی وفیات کی خبروں میں بھی کچھ کمی آئی تھی مگر گزشتہ چند دنوں میں اُوپر تلے پانچ احباب داغِ مفارقت دے گئے ہیں اس قطار میں تازہ ترین اضافہ صحافی اور افسانہ نگار مسعود اشعر اور شاعر رشید نیاز کا ہوا ہے رب کریم ان کی روحوں کو اپنی امان میں رکھے اور ہم سمیت اقوامِ عالم اور بنی نوع انسان پر آئی ہوئی اُس سختی کو معاف فرمادے جس نے گزشتہ تقریباً ڈیڑھ برس سے زندگی کو یُوں اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے کہ لوگ مسکرانا تک بُھول گئے ہیں۔

مسعود اشعر کی بنیادی وجہ شہرت اور تعارف تو یقیناً اُن کا صحافی ہونا ہی تھا مگر اپنی منفرد افسانہ نگاری ، ترجمہ کاری اور بین الاقوامی ادب کی اُردو میں منتقلی کے حوالے سے وہ ادبی دنیا میں بھی ایک بہت معروف اور محترم نام تھے۔ نوّے برس کی عمر میں بھی اُن کے چہرے کی شادابی سرکاری ملازمت میں موجود احباب کے لیے بھی ایک چیلنج کا درجہ رکھتی تھی کہ مکمل سفید بالوں والے سر کے باوجود وہ اپنی عمر سے بہت چھوٹے لگتے تھے اس پر مستزاد اُن کی سوچ کی جوانی اور اپنے نظریات سے کمٹ منٹ تھی جو اُن کی تقریر اور تحریر دونوں میں ہمیشہ نمایاں رہتی تھی۔

میری اُن سے پہلی ملاقات اُن کے امروز ملتان میں ملازمت کے دنوں میں ہوئی اور ان درمیانی پچاس برسوں میں، میں نے اُنہیں ہمیشہ ایک وضع دار انسان کے رُوپ میں دیکھا اُن کے خوبصورت چہرے کی مسکراہٹ اُن کے مردانہ وقار میں اضافہ کرتی تھی اور کسی بھی موضوع پر اُن کی گفتگو اُن کے وسیع مطالعے کی ترجمان ہوتی تھی اُن کی طویل صحافتی زندگی میں ملک میںہونے والی سیاسی تبدیلیوں کے حوالے سے بہت سے نشیب و فراز آئے مگر اُن کے کردار کی استقامت ہر امتحانی صورتِ حال میں قائم رہی اور وہ اپنی بات کو پورے اعتماد کے ساتھ کھل کر لکھتے رہے۔

افسانے اُنھوں نے تعداد میں کم لکھے اور میری معلومات کے مطابق اتنے طویل ادبی کیریئر میں صرف اُن کے چار افسانوی مجموعے شائع ہوئے جب کہ اُن کی افسانہ نگاری کے مداحین میں احمد ندیم قاسمی جیسے جید نام شامل ہیں۔ بیشتر ادبی اور نجی نوعیت کی تقاریب میں وہ اپنی بیگم صاحبہ کے ساتھ آیا کرتے تھے، بولنے سے زیادہ سننے کو ترجیح دیتے تھے مگر جب کسی علمی یا ادبی مسئلے پر بولتے تو اُن کا لفظ لفظ اُن کی علمیت اور سچائی سے محبت کی گواہی دیتا تھا۔

صحافت سے باقاعدہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ غیر ملکی زبانوں کے منتخب ادب کے اردو تراجم سے متعلق ایک ادارے سے وابستہ رہے اور اس ضمن میں خود اُن کی ترجمہ کردہ یونگ باکم کی کتاب ’’زندگی سے نجات‘‘ نے بہت شہرت اور مقبولیت حاصل کی۔ اُن کے افسانوی مجموعوں کے نام کچھ اس طرح سے ہیں ’’آنکھوں پر دونوں ہاتھ‘‘، ’’سارے افسانے‘‘، ’’اپنا گھر‘‘ اور ’’سوال کہانی‘‘۔

اُن کو کرداروں کی نفسیات اور اس کے محرکات سے بہت دلچسپی تھی چنانچہ اُن کی بیشتر کہانیاں اپنے اندر ایک خاص طرح کی گہرائی رکھتی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل اُن کی زندگی بھر کی ساتھی اُن کی بیگم اُن سے جُدا ہوگئیں جس کے بعد انھوں نے ملنا ملانا اور ادبی تقریبات میں جانا کچھ کم کردیا تھا مگر وہ ان چند خوش نصیب لکھاریوں میں سے تھے جن کو ہمیشہ عزت اور احترام کی نظر سے دیکھا گیا۔

میں نے اُن کے ساتھ کئی سفر بھی کیے ہیں بعض اوقات براہ راست لمبے لمبے مکالموں کا بھی موقع ملا ہے لیکن میں نے کبھی اُن کی زبان سے اپنے کسی نظریاتی حریف کے بارے میں توہین آمیز یا استہزائیہ کلمات نہیں سنے اور شائد اُن کی طبیعت میں یہی سلاست روی تھی کہ بدترین قسم کے ادبی مباحثوں میں بھی اُن کا نام احترام سے لیا گیا۔

ادبی برادری میں بہت کم لوگ وضع داری ، مردانہ وجاہت اور اپنی نظریاتی وابستگی سے کمٹ منٹ میں اُن کا مقابلہ کرسکتے ہیں اُن کا آبائی تعلق رام پور سے تھا مگر پاکستان میں موجود ہر کلچرل اکائی سے وہ صرف محبت ہی نہیںکرتے تھے بلکہ اس کی ترویج و ترقی میں بھی زبان اورقلم دونوں سے بھرپور حصہ لیتے تھے ۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں