تحریر: خرم علی عمران۔۔
وہ جو کہتے ہیں نا کہ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ توبالکل اسی طرح ایک تو ہوتا ہے مسئلے کا واقعتا موجود ہونا اور ایک ہوتا ہے خوامخواہ کا مسئلہ یا مسئلےبنادینا اور پھر اس کی بنیاد پر اپنی اپنی دکان چمکانا، اور صاحب کیا ہنر ہے یہ ! کیا کہنے اس کے!جیسے ہمارے کراچی میں ایک عام ترکیب اس طرح سے استعمال کی جاتی ہے کہ پہلے کسی ایک علاقے کی مین سیوریج کی لائنوں میں رکاوٹیں پھنسا دی جاتی ہیں اور کچھ دن تک اس مین لائین سے منسلک مختلف علاقوں کےعوام کو باری باری بہتے گٹر ،بدبو اور کچروں کے ڈھیر سے فیضیاب کیا جاتا ہے اور پھر سرکاری کھاتوں میں بھاری بھاری رقوم کے بلز اور کوٹیشنز بنا کر صفائی کروادی جاتی ہے اور دوسرے علاقے کی انتظامیہ کو اشارہ دے دیا جاتا ہے کہ اب وہ یہ عمل دہرائیں۔ پھر یہ تسلسل چلتا رہتا ہے لائنیں بند ہوتی اور صاف ہوتی رہتی ہیں بلز بنتے رہتے ہیں اور پیٹ بھرتے رہتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں مسئلہ بنانا اور پھر حل نکال کر مرد بحران بن جانا اور مسئلہ کے حجم کے اعتبار سے مال بھی بنانا۔
تو ایسے مسئلوں کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ کبھی ختم نہیں ہونگے مذکورہ بالا مثال تو صرف بنیادی انسانی ضروریات کے ایک شعبے کے بارے میں یہ ترکیب مسئلہ استعمال کرنے کے بارے میں دی گئی ہے اور یہ کوئی ایسا راز بھی نہیں ہے سب جانتے ہیں کہ افزائشِ مال کے لئے یہ سب طریقے کہاں کہاں اور کیسے کیسے استعمال ہوتے ہیں اور چپراسی سے لیکر ملک کے اعلی ترین عہدوں پر فائز افراد کیسے اپنی اپنی سطح پر مسئلہ پیدا کرکے وسیلہ بناتے ہیں اور گنگا نہاتے ہیں۔ اچھا کچھ مسائل ایسے پیدا کئے گئے ہیں جن کو لا ینحل چھوڑنا ہی ملکی مفاد میں ہے چنانچہ دہائیوں سے کچھ مسائل جیسے مسئلہ کشمیر وغیرہ غیر حل شدہ ہیں اور قوی امکان ہے کہ معاملات یوں ہی چلتے رہیں گے اور بہت سوں کے بھاگ لگے رہیں گے۔
دراصل وہ جو کچھ سنجیدہ لکھنے اور بولنے والوں نے کہا ہے نا کہ پاکستانی سوسائٹی یا ہمارا معاشرہ تقسیم در تقسیم اور تبدیلی در رتبدیلی کے مسئلے اور مرحلے سے گزرہا ہے اور تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ آچکی ہے وہ بڑی حد تک ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں ، بس اتنا اور اضافہ کرلیں کہ تبدیلی آئی ،اس نے دیکھا اور بجائے فتح کرنے کے ٹھس ہوگئی،یہاں جو جوہورہا ہے وہ عجیب وغریب سا ہی ہورہا ہے جیسےکوئی یوم محبت یاویلنٹائن ڈے منا رہا ہوتا ہے کہ نقالی کا خوگر ہے۔ توکسی کو خطرہ ہوجاتا ہے کہ اس کی مشرقی تہذیب، یہ دن منانے سے گویا منہدم ہو جائے گی اور وہ اسی لئےوہ یومِ حیا کا علم لے کر نکل پڑتا ہے۔ کوئی ‘عورت مارچ‘ کر رہا ہے اور کوئی اس کو روکنے کا اعلان کر رہا ہے اورجوابا حیا مارچ نکالا جارہا ہے۔ کوئی عرب اسرائیل معاہدے کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے تو کوئی اسے خوش آئند قرار دے رہا ہے۔ کوئی تبدیلی سرکار کو ملک و قوم کے لئے منحوس کہہ رہا ہے تو کوئی مسیحا،علی ہذالقیاس معاملہ یہاں آن پہنچا کہ ٹی وی سکرین میدانِ جنگ میں بدل گئی ہے،اور ایک دوسرے سے ایک سو اسی درجے کے زاویئے پر مخالف دو مکاتب فکر جیسے دو انتہاؤں پر پہنچے ہوئے ہیں۔ ایک گروہ کے نزدیک جیسے آج انسانی حقوق اور آزادیء اظہار کے اعتبار سے سب سے بڑا مسئلہ ہے تو بس ان ہی کا نقطہ ء نظر ہے تو دوسرے گروہ کے لحاظ سے وہ نقطہ ء نظر جھوٹ و فریب کابڑا مظہر ہے جبکہ حقیقت ان دونوں انتہاؤں کے کہیں درمیان میں موجود سسک رہی ہوتی ہے۔
ملک کے حقیقی وارث اس کے عوام ہوتے ہیں اور عوام الناس کے اصل مسائل وہی ہیں جن میں مزید بگاڑ پیدا کرکے خواص اور اشرافیہ اپنا اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔ ایک عام آدمی کو فی زمانہ مہنگائی میں کمی چاہیئے، رہن سہن کے اعتبار سے پرسکون اور پر امن ماحول چاہیئے اپنے بچوں کے سر پر چھت چاہیئے، روزگار چاہیئے،تعلیم چاہیئے،بجلی ،پانی اورگیس ارزاں نرخوں پر چاہیئے۔ آٹآ ،دال چینی،سبزی وغیرہ بغیر قلت اور گرانی کے چاہیئے، علاج و معالجے کی بہترین اور باسہولت صورتیں چاہیئں اور اسی طرح کی چھوٹی چھوٹی باتیں، ننھے منے سکون اور آرام چاہیئں بس، لیکن اسے کیا اور کس طرح مل رہا ہے یہ میں بھی خوب جانتا ہوں اور اپ بھی کہ اوپر جو جو چاہیئے اور جس طرح چاہیئے کے طور پر لکھا گیا ہے اسے الٹ کرلیں تو ویسے ہی سسک سسک کر وہی بنیادی سہولتیں بھیک کی طرح مل رہی ہیں جو کہ اس کا حق ہیں اور اس ملک کا آئین جس کا ضامن ہے۔
ہاں اشرافیہ کے لئے یہ ملک جنت سمان ہے، اگر آپ کوئی بھی جائز ناجائز حربے استعمال کرکے، ایمان و اصول فروشی کرکے ،رشوت،خوشامد اور ناجائز امور کو اختیار کرکے،لوگوں کا حق غضب کرکے یا کسی بھی اور طرح سے اگر طبقہ ء اشرافیہ میں شامل ہو چکے ہیں،اگر آپ بااختیار،بارسوخ،دولت مند اور وسیع تعلقات کے حاملین میں سے ہو چکےہیں تو پھر آپ جیسے جنت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ آپ کسی قسم کی مشکل اور پریشانی سے دنیاوی نقشوں کے اعتبار سے دوچار نہیں ہوں گے ہاں قدرتی اکر کچھ مکافات وغیرہ ہوجائے تو الگ بات ہے۔ اپ کو ہر طرح سے ،ہر شعبے میں ہر سطح پر آسانیاں ہی آسانیاں ملیں گی،آپ کو ریلیف دینے کے لئے قوانین تک تبدیل ہوجائیں گے ،آپ کی جبینَ ناز پر شکن نہ آجائے اس کے لئے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ رکھا جائے گا۔ آپ کو کبھی کسی قلت کا سامنا نہ ہوگا، کہیں لائن میں نہیں لگنا پڑے گا،کہیں علاج معالجے کے لئے جعلی اسپتالوں ،ڈاکٹروں اور عطائیوں کے ہاتھوں خوار و زبوں نہیں ہونا پڑے گا،آپ کوکبھی اپنا بجلی کا ناجائز بنا ہوابل دیکھ کر دل کا دورہ نہیں پڑے گا بلکہ آپ ہنس کر ایک فون گھمائیں گے اور سب معاف کرالیں گے، آپ جس شعبہ ہائے زندگی میں جو بھی معاملہ کریں گے بہترین سہولیات اپ کے لئے حاضر ہوں گی۔ آپ لاکھوں نہیں کروڑوں نہیں بلکہ اربوں کھربوں کے قرضے اور بلز ہضم کرجائیں گے اور بعد میں معاف بھی کرالیں گے۔ اپ کی اشرافیائی برادری جو اس ملک میں ہر ہر شعبہ ہائے زندگی میں اہم عہدوں پر براجمان ہے قطع نظر سیاسی و مذہبی وابستگی، آپ کی ہر ہر مرحلے پر معاون و مددگار ہو گی اور جوابا آپ بھی ان کے لئے اسی طرح معاون و مدد گار ہوں گے اور سب یونہی ہرا ہرا رہے گا اور اس ملک کا عام آدمی یونہی وبالِ حیات سے مرا مرا رہے گا اور ۔
ایسی بہت سی باتیں اور مثالیں کئی طرح سے بیان کی جاسکتی ہیں جو بالا منظر کشی کو اور پر زور بنا سکتی ہیں لیکن تکرار ہوجائے گی اس لئے میرا ہمدردانہ مشورہ ہے کہ بھائی اگر زندگی کا صحیح لطف اٹھانا ہے تو نا موجود مسئلوں کا مسئلہ بنانا اور پھر اسے حل کرنا سیکھ لو ،لائف بن جائے گی۔ ورنہ یونہی عام آدمی کی روتی گاتی سسکتی زندگی گزارتے اور امید و وعدہ ء فردا پر جیتے رہو کہ شاید اب کچھ بہتر ہوجائے گا،ہو سکتا ہے کہ شاید قدرت کو رحم آجائے اور آئندہ کوئی بنیادی اور جوہری تبدیلی ایسی بھی اجائے جو اس مظبوط ترین اشرافیائی نظام کے اس بہیمانہ جال کو کاٹ کر پھینک سکے لیکن فی الحال تو یہ امکان بہت بعید ہے اور رہی بات موجودہ ٹھس قسم کی تبدیلی کی تو یہ تو بجائے خود اسی اشرافیائی نظام کا ایک ذرا سا نئے انداز کا تسلسل ہے اور کچھ نہیں۔ فی الحال تو یہی ہے آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔(خرم علی عمران)۔۔