تحریر: عثمان غازی
پاکستانی میڈیا بحران سے گزررہا ہے کیونکہ میڈیا کی ترقی مصنوعی تھی اور محض سیاسی فوائد کے لئے میڈیا انڈسٹری کو انتہائی عروج کے دو ادوار ملے، ایک ڈکٹیٹر پرویزمشرف کی رخصتی کے وقت اور دوسرا سلیکٹرز کی پراڈکٹ عمران خان کی لانچنگ کے وقت۔۔
وفاق میں پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں میڈیا انڈسٹری کو مستحکم رکھنا مقتدر قوتوں کے لئے ضروری تھا، اس دور میں میڈیا کو کردارکشی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا، یہیں سے میڈیا کی ساکھ پر سوال اٹھنا بھی شروع ہوئے جس سے مستقبل میں ریٹنگ پر بھی کافی فرق پڑا۔
پاکستانی پریس میڈیا کو اس پس منظر کے ساتھ دو غیرمتوقع بحرانوں کا بھی سامنا کرنا پڑا، پہلا سوشل میڈیا کا بڑھتا استعمال جس کے بعد ایڈورٹائزنگ کابجٹ ویب انڈسٹری کی جانب منتقل ہونا شروع ہوا اور دوسری طرف شوبز انڈسٹری کا فروغ جو ایڈورٹائزرز کے لئے نیوز کے مقابلے میں ترجیحی شعبہ ہے۔
اس سارے پس منظر میں بدترین حکومتی معاشی پالیسیز نے رہی سہی کسر نکال دی اور میڈیا ورکرز تیزی کے ساتھ نوکریوں سے نکالے جانے لگے، میڈیا مالکان نے ادارے نفع کمانے کے لئے قائم کئے تھے، انہیں صحافت کرنا تھی اور نہ صحافیوں کے لئے فلاحی کام ۔۔ اس ساری صورت حال میں ورکنگ جرنلسٹ اس لئے بھی بے بس ہے کہ جب میڈیا کو اپنا پہلا عروج ملا تو میڈیا ہاؤس کی اتھارٹی ایڈیٹر کے ہاتھوں سے نکل کر میڈیا منیجر کے پاس چلی گئی اور صحافی کلرک بن کر رہ گئے اور کلرک مزاحمت نہیں کرسکتے۔
جنرل ضیاء کی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف پریس میڈیا ایک مؤثر قوت کے طور پر سامنے آیا تھا اور مقتدر قوتوں نے اس قوت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے جماعت اسلامی سے وابستہ لوگوں کو میڈیا انڈسٹری میں پروموٹ کیا، جماعت اسلامی مقتدر قوتوں کی آلہ کار جماعت ہے، یہ کبھی بھی مزاحمت نہیں کرتی، آج بیروزگاری کا نشانہ جماعت اسلامی سے وابستہ وہ میڈیا ورکرز بھی بنے ہیں، جنہیں ایک خاص مقصد کے لئے میڈیا میں لایا گیا، اب ان کا مقصد پورا ہوچکا ہے، ان کی قابل رحم حالت پر مقتدر قوتوں کی اب کوئی پالیسی نہیں۔
کراچی میں میڈیا کے اداروں کے ہیڈآفسز ہونے کا پورا پورا فائدہ ایم کیوایم نے اٹھایا اور مہاجر شاونسٹوں کا ایک بڑا حصہ نیوز روم میں صحافی بن کر گھس گیا، ان لوگوں نے منفی خبروں کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا، آج یہ بھی بیروزگار ہورہے ہیں اور ان کے کوئی آنسو پونچھنے والا بھی نہیں، یہ کافی افسوس ناک صورت حال ہے۔
وہ مائیک ہولڈر جو اسکرین پر خود کو دکھا کر اپنا آپ بیچنے آئے تھے، ان کی بے روزگاری بھی نہیں ہونی چاہئیے تھی، جن نسل پرستوں اور مذہبیوں کے لشکروں کو مقتدر قوتوں کے ایماء پر میڈیا انڈسٹری میں اِن کرایا گیا، ان کو بھی بے روزگار نہیں ہونا چاہئیے تھا مگر یہ سب کہیں نہ کہیں ایڈجسٹ ہوجائیں گے، کوئی بینک میں چلا جائے گا، کوئی دکان چلالے گا، کوئی شوروم تو کسی نے اسٹیٹ ایجنسی کھول لینا ہے۔
مسئلہ تو اس ورکنگ جرنلسٹ کا ہے جسے صحافت کے سوا کچھ نہیں آتا، وہ کہاں جائے گا!(عثمان غازی)۔۔
(عثمان غازی ایک صحافتی بیک گراؤنڈ رکھتے ہیں آج کل سندھ کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پیپلزپارٹی کے میڈیا سیل سے منسلک ہیں، زیرنظر تحریر ان کی فیس بک سے لی گئی ہے، جس سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)