تحریر: سید شعیب الدین احمد ( چاچو )
میں نے سوچا تھا کہ میرے لکھے کو بہت جانا جائے گا مگر دوستوں نے پھر وہی پہلے والی غلطی دہرائی جس کی وجہ سے مجھے فیس بک اور سوشل میڈیا پر جانا پڑا تھا ۔ نجانے چند روپوں کیلئے ہم اتنے بیتاب کیوں ہو جاتے ہیں ۔ جی آپ صحیح سمجھے مسئلہ پھر صحافی کالونی ہی کا ہے ۔ میں نے اپنے جیسے بے وسیلہ لوگوں کا رونا رویا تو ان تمام دوستوں کا شکریہ جنہوں نے میرے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کو دل سے سنا اور پھر ” آگے پھیلایا ” ۔ نتیجہ ہم بے کسوں کی سنی گئی اور وہ ٹرانسفارمر جس کے بارے دو بااختیار افراد نے رعونت سے کہا تھا کہ بااختیار لوگ فیصلہ کریں گے کس کی ضرورت ” اہمیت ” رکھتی ہے ۔ وہ مشکل کے 100 گھنٹے گزارنے کے بعد ہماری زندگی میں روٹھی خوشی واپس لے آیا ۔ مجھے کچھ دوستوں کی طرف سے پیغام ملا شکریہ ادا کروں ۔ مگر میرا موقف تھا بطور مکین صحافی کالونی یہ میرا حق تھا ۔ ابھی گومگو کی کیفیت میں تھا کہ کیا لکھوں کہ کچھ اطلاعات ملیں ہم بیچاروں سے مزید رقم مانگی گئی ہے ۔ اسی دوران طلبی اگئی کہ مسکین حاضر ہوں ۔ میں تو جا نہیں سکتا مجبور ہوں گھر تک محدود ہوں ہمسایوں سے کہا آپ جائیں ۔ دیکھیں کیا حکم ملتا ہے ۔ جو دوست گئے انہوں نے آکر بتایا کہ 50 ہزار روپے کی ” ڈیمانڈ ” کی گئی ہے ۔ جب تفصیل مانگی گئی تو پتہ چلا کہ نئے ٹرانسفارمر میں 40 لٹر ڈیزل ڈالا گیا ہے جس کی قیمت 12000 بنتی ہے ۔ جبکہ ٹرانسفارمر میں ڈالے تیل کو گرم کرنے کیلئے 3600 روپے کی 3 من لکڑی خرید گئی ۔ ٹرانسفارمر اتارنے والی کرین نے 7000 اور ٹرانسفارمر نصب کرنے والی کرین کو 5000 روپے ادا کئے گئے ۔ اس کے علاؤہ 30000 روپے پرانے ٹرانسفارمر کی مرمت کے نام پر طلب کئے گئے ۔ مظلوموں کے نمائندوں نے کہا کہ جو ٹرانسفارمر یہاں سے اتارا گیا اس کا اب ہم نے کیا کرنا ہے ۔ لہذا اس کی مرمت کے پیسے ہم کیوں دیں ( میں وہاں موجود ہوتا تو کہتا پہلے ہم سے اس کو ٹھیک کرنے کے پیسے وصول کرو گے ۔ بعد میں جہاں اسے لگایا جائے گا ان سے بھی ٹرانسفارمر ” مرمت فیس ” وصول کی جائے گی ) ۔ بہرحال ہمارے مظلوموں کے نمائندوں نے مرمت کے نام پر مزید پیسے دینے سے انکار کردیا ۔ البتہ ان کا کہنا تھا کہ جو خرچ نئے ٹرانسفارمر پر ہوا ہے وہ دے دیں گے مگر پہلے بی اور سی بلاک والوں کو الگ ٹرانسفارمر تو لگا دیں یا قبرستان کے ساتھ والے ٹرانسفارمر سے ان کا کنکشن جوڑ دیں ۔ جس پر اس کیلئے باقاعدہ درخواست بھی مانگ لی گئی ۔ حالانکہ درخواست کی نہ ضرورت ہے نہ ہونی چائیے ۔ (مگر کیا کریں جہاں اختیار ہوگا وہاں اس کا اظہار بھی تو ہوگا ۔) بہرحال میٹنگ والے دوست واپس پہنچے تو انہیں ایک دوست سے دھمکی آمیز فون کروایا گیا کہ تم پیسے کیسے نہیں دو گے میں نے تمہارا ٹرانسفارمر لگوایا ہے یہ سب میری کاوشوں سے ہوا ہے میں لگوا سکتا ہوں تو میں اتروا بھی سکتا ہوں ۔ مجھے یہ سب سن کر تکلیف پہنچی ہے لہذا اپنے دکھڑے پھر رو رہا ہوں ۔ سمجھ نہیں آتا ہم اللہ کے دئیے پر راضی کیوں نہیں ہوتے ۔ اب کچھ مزید سچ سن لیں میں یکدم سب سچ اکٹھے سامنے نہیں لارہا ہوں ۔ جب تک یہ چاہیں گے میں لکھتا رہوں گا اب مرضی ہے فیصلہ کرلیں کیا کرنا ہے ۔ میں نے پہلے ٹرانسفارمر ٹرالی کا ذکر کیا تھا تب یہ بھی بتایا تھا کہ یہ ٹرالی کالونی کے باہر شادی ہال پر بھی نظر آتی رہی ہے ۔ اب سن لیں یہ غائب جیسے ہوئی ہے اس کا الزام کلب کے پرانے ملازم محمد خان پر ہے ۔ کالونی کے ” ایڈمنسٹریٹر ” کا عہدہ طویل عرصہ نبھانے والے محمد خان نے جہاں اپنے خاندان کو مسجد کے سامنے دکان الاٹ کی وہیں پرائیویٹ افراد یعنی صحافیوں سے پلاٹ خرید کر بنانے والوں سے دھڑلے سے منہ مانگی رقم وصول کی ۔ ایک بیوہ خاتون نے 50000 ادا کئے مگر بدقسمتی سے انہوں نے مجھے کافی تاخیر سے بتایا ۔ تیسری منزل پر ممٹی یا کمرہ بنانے والوں نے خطیر رقومات ادا کیں ۔ میں نے اب تمام پرائیویٹ دوستوں سے تفصیلات طلب کی ہیں ۔ یہ وائٹ یپر بھی سامنے آنا چاہیے ۔ پھر کلب انتظامیہ جانے محمد خان کو بلا کر پوچھے کہ اس کا ” سرپرست ” کون تھا ۔ ٹرانسفارمر ٹرالی کی بات بیچ میں رہ گئی کہ وہ ٹرانسفارمر سمیت غائب کہاں ہو گئی ۔ مجھے ملنے والی اطلاعات کے مطابق وہ ٹرالی E بلاک میں لیجائی گئی ۔ جہاں محمد خان نے۔ کسی طاقتور کی اتباع میں یا ” جیب گرم ” ہونے پر خراب ٹرانسفارمر کی جگہ ٹرالی والا ٹرانسفارمر لگوا دیا ۔ خراب پرانا ٹرانسفارمر اور ٹرالی کہاں گئی محمد خان کو صدر اور سیکرٹری صاحب کمرے میں بٹھا کر ” ٹکور ” کریں سچ سامنا جائے گا ۔ ورنہ احسان شوکت مجاہد شیخ جیسے سرگرم کرائم رپورٹرز کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں ۔ لکھنے کو بہت کچھ ہے مگر میری ایک وارننگ ہے مجھے مجبور نہ کیا جائے کہ میں گھر بیچنے سے پہلے کلب کی ممبر شپ چھوڑوں اور پھر کالونی کے مستقبل کی خاطر یہاں کے رہائشی غیر صحافی مکینوں کے ساتھ کھڑا ہو کر اس کالونی کو باقاعدہ سرکاری کالونی بنانے کی جدو جہد کا آغاز کروں ۔۔
ہم نیک وبد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں ۔ باقی جو مزاج یار میں آئے ۔
اضافی نوٹ۔۔۔۔
معین اظہر صاحب کو سمجھ آگئی ہوگی میں کیوں ان کے اصرار کے باوجود کالونی کی مینجمنٹ کمیٹی سنبھالنا نہیں چاہتا تھا ۔ اعظم صاحب اور عبد المجید ساجد صاحب کا شکریہ کہ انہوں نے مجھے مینجمنٹ کمیٹی کا ممبر بنایا ۔ مگر میرا رب بڑا بے نیاز ہے اس نے مجھے میری بیماری کی وجہ سے اس ذمہ داری سے بچائے رکھا ۔( سید شعیب الدین احمد ، چاچو )
مسئلہ پھر صحافی کالونی کا۔۔
Facebook Comments