media ki barbaadi ab bhugto

مسئلہ ’’  فیک نیوز‘‘ نہیں،۔۔

تحریر: ناصر جمال

انھیں نفرت ہوئی سارے جہاں سے

نئی دنیا کوئی لائے کہاں سے

(داغؔ)

’’میں پرندوں کی طرح گانا چاہتا ہوں۔ مجھے اس کی کوئی فکر نہیں ہے کہ کوئی کیا سنتا اور سوچتا ہے۔‘‘(جلال الدین رومیؒ)

برادرم رئوف کلاسرہ کی وال پر یہ پوسٹ پڑھی۔ روح تازہ ہوگئی۔ یقینی طور پر ایک صحافی کیلئے، اس میں کمال پیغام، طاقت اور روشنی چُھپی ہے۔ اگر وہ اسے حاصل کرنا چاہے۔

’’ڈٹ کے کھڑا ہے کپتان‘‘

وہ’’ فیک نیوز‘‘ کے نشے سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں۔ ابھی تک تشنگی باقی ہے کہ اتنے اعلیٰ درجے کا ’’سٹف‘‘ پنڈی سے آیا ہے یا لدھڑ(جہلم) کے حکیموں کی ایجاد ہے۔ زیادہ شک یہی ہے کہ اس کی تیاری میں ’’دوستوں‘‘ کی ’’چینی‘‘ سوچ ہے۔ اس کے بعد نیم حکیموں نے کچھ معجون اور چورن، کمپنی کی مشہوری کیلئے ڈالے ہیں۔ وگرنہ اپنی دُکان بند ہوجائے گی۔ مگر اسی تیزی میں ’’کشتہ‘‘زہریلا ہوگیا۔ اب اُسے یہ نہ، نگل سکتے اور نہ ہی اُگل سکتے ہیں۔

قارئین۔۔فیک نیوز کی اصطلاح جو آج استعمال کررہے ہیں۔ وہ تو اس کی فیکٹری کے بلاشرکت غیرے مالک ہیں۔ ان کے ماضی کے شوشے، بیانات اور فیک نیوز کی ویڈیوز، اُن کا پیچھا چھوڑنے کا نام نہیں لے رہیں۔ میڈیا کا اتنا قصور ہے کہ وہ اکثر انھیں اسکرین کی زینت بنا دیتے ہیں۔ جو بادشاہ سلامت کےمزاج پر گراں گزرتی،اوربرہم کرتی ہیں۔ پھر کیاہے۔ شاہی نورتن ،فواد چوہدری کی قیادت میں بیانات کی گولہ باری شروع کر دیتے ہیں۔ اپوزیشن آگ پر پٹرول چھڑک دیتی ہے۔ ظاہر ہے، یہ اس کا عین سیاسی فریضہ اور عادت جو ٹھہری۔

ویسے ’’فیک نیوز‘‘ ہے کیا۔ میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کا شوشہ، کیا میڈیا نے چھوڑا تھا۔ اگر کوئی ایسا قانونی مسودہ نہیں ہے تو پھر،مشاورت کس لئے کی جاتی رہی۔ اب کمیٹیاں کس لئے بن رہی ہیں۔ اس فیک نیوزوالوں کا محاسبہ کون کرے گا۔

پہلے آئی۔ ایس۔ پی۔ آر۔ سے ’’مثبت رپورٹنگ‘‘ کی اصطلاح سامنے لائی گئی۔ جیسے تبدیلی خان نے ’’گھبرانا نہیں‘‘ کا نعرہ مستانہ ایجاد کیا تھا۔ دونوں نے اس ریاست، ملک اور قوم کا جو حال کیا۔ آج سب کے سامنے ہے۔ مثبت رپورٹنگ کے نتائج کے حصول کیلئے، میڈیا کو برباد کردیاگیا۔ مارشل لاء ادوار سے ’’بدترین میڈیا ایڈوائسز ‘‘ کا میڈیا ورکروں کو سامنا کرنا پڑا۔ 80فیصد لوگ بے روزگار ہوگئے۔ آج بھی حکومتی میڈیا(اشتہارات) کی تقسیم کی ریوڑیاں ماضی کی طرح’’ اندھا دُھند‘‘ تقسیم ہورہی ہیں۔ تین سالوں میں پی ۔ٹی۔ وی۔ بجلی کے بلوں میں 35 روپے فیس کی مد میں 30ارب لے اڑا ہے۔ اب تک یہ رقم 1 کھرب کے قریب ہونی چاہئے۔ یہ شوکت عزیز کا قوم کو تحفہ تھا۔ لوگ تو کہتے ہیں کہ پی۔ ٹی۔ وی۔ ہمیشہ سے ’’حکومتی طوطا‘‘ رہا ہے۔ حقائق کو مسخ کرنا،کوئی ان سے سیکھے۔فیک نیوزکے ’’نیوٹن‘‘ یہیں پیدا ہوئے ہیں۔ ابھی بھی نہایت کامیابی سے یہ عمل جاری ہے۔ یہاں نیوز تو نہیں ہوتی۔ پھر ظاہر ہے ، ’’فیک‘‘ ہی باقی بچتا ہے۔ جس ملک میں پینے کا 95 فیصد پانی آلودہ ہے۔ وہاں کھربوں روپے’’فیک نیوز‘‘ کو پروان چڑھانے کیلئے خرچ کردیئے گئے ہیں۔ چلیں پہلے والے تو کرپٹ تھے۔ ایماندار 30 ارب کا حساب دیں۔

قارئین۔۔موجودہ حکومت98 فیصد میڈیا کو، بندے کا پُتر بنا چکی ہے۔ اب فیک نیوز کا ڈرامہ2 فیصد’’باغی‘‘ صحافیوں کو قابو کرنے کیلئے ہے۔ حامد میر، عمر چیمہ، مطیع اللہ جان، اعزاز سید، طور جیسے کردار، اپنے اور آقائوں کےایجنڈوں پر ہیں۔ مگر ان کی آڑ میں جو 2 فیصد قابو نہیں آرہے۔ ان کو نشانِ عبرت بنانا مقصود ہے۔ یہی اس ملک کے’’ اصل فسادی‘‘ہیں۔ یہ آئین، قانون، گڈ گورننس، عوام، ریاست اور احتساب کی بات کرتے ہیں۔ ان کی آوازوں کا دبانا ضروری ہے۔کیونکہ حکمرانوں کے نزدیک یہ روشنی پھیلا نے والے شرپسند ہیں۔ان کے آگے دیواریں(میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی) اٹھائو۔ ان کو روکو۔ جبر کی رات کسی طور پر بھی ختم نہیں ہونی چاہئے۔

آج دنیا میں پاکستان کی صحافت کی آزادی کو، نچلے ترین مقام پر لے جانے پر ، حکومت اور دوستوں کو داد نہ دینا مزید زیادتی ہوگی۔

وہ چند ایجنٹوں کے چکر میں، پورے میڈیا کو ہی بلڈوز کرنے چلے ہیں۔ کہیں یہ نا ہو، ہمیں بعد میں پتا چلے کہ ’’ایجنٹ‘ بھی انھی کے تھے۔ اگر کبھی ایسا دن آیا تو، وہ میرے لئے، بہت ہی سوگوار دن ہوگا۔

قارئین۔۔ بابائے قوم اور خان لیاقت علی خان کے بعد سے ہمیں فیک لیڈر شپ نے بہت ستایا۔ ایک اور دو نمبروں کے درمیان جنگ رہتی۔ ’’قبضہ گروپ‘‘ تو ہوتا ہی دو نمبر ہے۔ پھر اُس نے ایک نمبروں کا صفایا کرنے کیلئے بی۔ ڈی ممبرز کا کامیاب جال ڈالا، ہر چیز کنٹرولڈ چاہتے تھے۔ پاکستان اسی کوشش میں دولخت کردیا گیا۔ آپ ’’حکایتِ گوہر‘‘ پڑھیں۔ کئی سال پہلے ہی ایوب خان نے کہا کہ ’’بنگالیوں نے ہمارے ساتھ نہیں رہنا۔‘‘ الطاف گوہر نے پوچھا کہ ’’پھر آپ وہاں اسمبلی اور سیکرٹریٹ کیوں بنا رہے ہیں۔‘‘ آمر نے کہا کہ جب یہ لوگ ہم سے الگ ہوں تو ،ان کے پاس کچھ تو انتظامی انفراسٹریکچر ہو۔ ایوب خان بھی ہیرو ہے۔ جنرل یحییٰ اور نیازی بھی ہیرو تھے۔ ان کے سیاسی حواری بھی ہیرو تھے۔ مجیب الرحمٰن کو غذار بنا دیا گیا۔ اس نے تو آخری تقریر میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا تھا۔ بھٹو کا اقتدار میں آنا، حکومت چلانا، جانا اور سولی پر چڑھنا سب متنازعہ ہے۔

 پھر ضیاء الحق آئے اورملک اور قوم پر گیٹ نمبر چار کی نرسری مسلط کردی۔اب اُس نرسری کے پودے تناور درخت بن گئے اور ان درختوں نے پھل دینے کی بجائے قوم کا لہو چوسا ہے۔ بے نظیر آئیں، تحریک عدم اعتماد کے بعد، ان کا اعتماد ہی رخصت ہوگیا۔ زرداری کا فلسفہ چھا گیا۔ جو آج بھی ’’جاری اوربھاری‘‘ ہے۔ پنڈی نے آئی۔ جے ۔ آئی۔ کھڑا کیا۔ وجہ امریکیوں سے وہ میٹنگ تھی۔ جس میں غلام اسحاق خان،جنرل حمید گل اور دو چار اور لوگوں سے امریکیوں نے تین سوالات پوچھے، بے نظیر آئیں تو کیا ایٹمی پروگرام ختم، رول بیک یا فریز ہوسکتا ہے۔  ’’پنڈی اور آبپارہ ‘‘ کےکان کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے بے نظیر کا راستہ روکنے کیلئے، نواز شریف پر ہاتھ رکھ دیا۔ میٹنگ میں شریک ایک معتبر ذریعے نے کہا کہ اس وقت فیصلہ لینا ضروری تھا۔ آج اعتراف کرتا ہوں کہ اس وقت ہم بے نظیر کو صحیح نہیں سمجھ سکے۔ ہم ذرا زیادہ جلدی کرگئے۔ مگر کیا کرتے کوئی تو فیصلہ لینا ہی  ہوتاہے۔

مجھے اس میں کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ ’’بے نظیر بھٹو، ایک مکمل سیاستدان تھیں۔ وہ کبھی بھی اپنے کارڈ ایک جگہ نہیں رکھتی تھیں۔

 امریکی، اپنے لئے ’’ایکسکلوزو قانون‘‘ بنانا چاہتے تھے۔ وہ پریشان تھیں۔ ایک ڈپٹی سیکرٹری محمود سلیم محمود کی امریکی سفیر غالباًرابرٹ اوکلے نےوزیر اعظم بے نظیر بھٹو سے بدتمیزی کی شکایت کی۔ ڈپٹی سیکرٹری کو بلایا گیا۔ اس نے کہا کہ ’’سفیر صاحب، ویسے ہی ناراض ہوگئے۔ میں نے انھیں بتایاتھا کہ حکومت کے پاس سینٹ میں اکثریت نہیں ہے۔ صدر بھی مخالف ہے۔اپوزیشن نے ناک میں دم کیا ہوا ہے۔ یہ قانون نہیں بن سکتا۔ اگر بنا تو سب کیلئے بنے گا۔بے نظیر نے یہ سُنا تو بہت خوش ہوئیں۔ محمود سلیم محمود کو شاباش دی اور کہا کہ اس نوجوان نے تو میرا مسئلہ ہی حل کردیا ہے۔ اب یہی جواب امریکی سفیر اور ایڈمنسٹریشن کو دوں گی۔

قارئین۔۔انتہائی معذرت کے ساتھ، اس کے بعد، فیک لیڈر شپ کا لامتناعی سلسلہ ہے۔ سیاستدانوں سے لیکر عسکری لیڈر شپ تک، ایک تباہ کن فہرست ہے۔ بیورو کریسی کے محاذ پر ذاتی غلام درغلام بنانے کا سلسلہ شروع ہوا۔

چلیں جنرل وحید کاکڑ کو نکال دیں تو، 30سالوں میں پیچھے کیا بچتا ہے۔ کوئی کمزور دل ،تو کوئی اپنی ذات کیلئے مضبوط دل ہے۔ انسان خوبیوں، خامیوں کا مرکب ہوتا ہے۔ مگر آپ محمد خان جونیجو کی طرح کچھ تو مضبوط ہوں۔ کمزور وکٹ کا دلیر بیٹسمین،جس نے تین سال اپنی فیملی کو وزیراعظم ہائوس تو درکنار، اسلام آباد بھی نہیں آنے دیا۔ جمالی سے لیکر زرداری، نواز شریف سے لیکر خاقان عباسی تک بچوں، بھائی، بہنوں اور دوستوں کی مداخلت اور مفادات نے سب کچھ گُہنا دیا۔

جبکہ موجودہ حکومت کے تین سال اس حوالے سے بدترین ہیں۔ یہ سب کو پیچھے چھوڑ گئے۔ دو رنگی، بدعملی اور تضادات، اس حکومت کے ’’نشان حیدر ‘‘ہیں۔ قومی محاذ پر کچھ ہو نہیں سکا۔ اب پہلے مرحلے میں ان پر ،سُسرال یعنی برطانیہ وارے نیارے جارہا ہے۔ پھر امریکہ اور یورپ مہربان ہوگا۔ تاکہ امیج بلڈنگ ہو۔ مستقبل کا یہی منظر نامہ نظر آرہا ہے۔ بونوں کے قد اونچے ثابت کرنے کیلئے، ان کے نیچے’’ریلیف اور کشش ‘‘ کی بیساکھیاں رکھی جائیں گی۔ تاکہ انھیں فیک لیڈر سے اصل لیڈر ثابت کیا جائے۔

قارئین۔۔مسئلہ فیک نیوزنہیں ہے۔ مسئلہ فیک لیڈر شپ کا ہے۔ جسے مسلسل اس ملک پر مسلط کیا جارہا ہے۔ تاکہ یہ ملک کبھی اُٹھ نہ سکے۔ آپ یقین کیجئے۔ جتنا بوجھ عوام پر لاد دیا گیا ہے۔ کسی روز اس بوجھ سے یہ ویسے ہی ختم ہوجائیں گے۔ پھر اپنے اکائونٹوں، جائیدادوں، جعلی ووٹوں، مینڈیٹ، میزائلوں، ٹینکوں اور جہازوں کو چاٹتے رہیے گا۔

کنٹرولڈ میڈیا سے، اصل خبریں اور فیک لیڈرشپ کے دوسو نمبر بیانات اعداد و شمار، چارٹ آرہے ہوں گے کہ راوی پورے ملک میں چین لکھ رہا ہے۔ پہلے مشرقی پاکستان دیا تھا۔ اب کشمیر دے دیا ہے۔ کل بلوچستان دے دیں گے۔ بس! قوم نے گبھرانا نہیں ہے۔ صحافت کے مثبت کردار کو سلام۔پھر کچھ اس طرح کی خبریں پاکستانی میڈیا کی زینت بنیں گی۔

مودی جی! اگلے ہفتے، پاکستان کے دورے پر پدھاریں گے۔ ایئر پورٹ سے سیدھا، کٹاس راج جائیں گے۔ وہاں سے بنی گالہ، ایف۔ ایٹ واپسی پر جاتی امرا(رائیونڈ) سے براستہ واہگہ بارڈر بھارت کیلئےروانہ ہوجائیں گے۔ شری مودی جی! شہدا کی یادگار پر حاضری  بھی دیں گے۔ اور اسے حکومت کی بڑی کامیابی قرار دیا جائے گا۔ قوم کو شادیانے بجانے کا حکم جاری کیا جاتا ہے۔مثبت رپورٹنگ، اصلی نیوز، اصل لیڈرشپ زندہ باد۔(ناصرجمال)

How to write on Imranjunior website
How to write on Imranjunior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں