تحریر: ارسلان بن اشرف
تعلیم یافتہ خواتین کا جاب نا کرنا بلا شبہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے۔ اول تو ہمارے معاشریمیں بیٹیوں کو تعلیم ہی نہیں دلوائی جاتی اور اگر دلوائی بھی جائے تو یہ کہہ کر کہ برے وقت میں تعلیم ان کے کام آئے گی۔۔سوال یہ ہے کہ 3 سے 4 بچوں کی مڈل ایج ماں 15 سے 20 سالہ زنگ لگی ڈگری کے ساتھ کس قابلیت کی بنا پر جاب حاصل کر سکے گی؟
یہ عام مشاہدہ ہے کہ ہاوس وائف خواتین سب سے زیادہ سہل پسند اور کسی حد تک سیلفش ہوتی ہیں،گھر،بچے،خاندان،سوشل لائف،سٹائل،فیشن، شوق اور خواہشات کو انجوائے کرتی ہیں اور مرد دن رات کفالت کی چکی میں پستا نظر آتا ہے۔مرد کفالت کے ہاتھوں اتنا مجبور ہوتا ہے کہ نا وہ اپنے بچوں کا بچپن انجوائے کرپاتا ہے نا ہی خاندانی خوشیاں اور نا ہی سوشل لائف۔ مرد بیچارہ گھریلو آسودگی کے لئے دن رات مشین کی طرح کام کرتا ہے اور ہاوس وائف “بچوں کو سنبھال رہی ہوں”، “گھر کو سنبھال رہی ہوں” جیسے روایتی جملوں کا ورد کرتی نظر آتی ہیں۔
پڑھی لکھی لڑکیو۔۔!
آج ہم ہر بات پر یورپ کی مثالیں دیتے ہیں۔وہاں ہر شخص خواہ وہ مرد ہے کہ عورت اپنی اپنی ذمہ داری خود اٹھاتا ہے۔ خدارا ذمہ داریاں بانٹنا سیکھیں،اگر آسودگی چاہیے تو اپنے مرد کا ساتھ دیں تاکہ وہ بھی زندگی زندہ لوگوں کی طرح جی سکیں تاکہ ان کو بھی ذہنی و جسمانی سکون مل سکے اور ہاں ایک بات اور کہ بیوہ اور یتیموں کی کفالت جو اسلامی ریاست کی ذمہ داری تھی اسے کرپٹ حکمران اور معاشرہ کھا گیا ہے۔آج کا معاشرہ بیوہ کو چادر نہیں دے سکتا چار دیواری تو بہت دور کی بات ہے۔(ارسلان بن اشرف)۔۔۔
آج کل لوگ عمران خان اور نواز شریف پر بات کر رہے ہے کتنا اچھا ہو تمام پارٹیاں مل کر ملک کے حالت کو درست کریں اور مل کر ملک کے لوگوں کی بہتر کریں اور ملک کے اندرونی دشمنوں اور بیرونی دشمنوں کے منصوبوں کو فوج کے ساتھ مل کر مقابلہ کریں